تعلیم

علم منطق؛ تعارف و مقاصد

ہر علم کی اپنی ایک خصوصیت ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ دیگر علوم و فنون سے نمایا و ممتاز نظر آتی ہے انھیں علوم میں ایک علم منطق بھی ہے جس کی شہرت کا ڈنکا عرب و عجم میں مثل رعد و برق کے رواں و دواں ہے ۔علم منطق کے تعلق سے چند مہم الاہم باتیں مرقوم الذیل ہیں۔

علم منطق کی تعریف:

ایسے اصول و قوانین کا جاننا جن کی پابندی ذہن کو نظر و فکر کی غلطی سے بچاتی ہے ۔

منطق کو منطق کیوں کہتے ہیں :

منطق بنا ہے ” نطق” سے جس کے معنی ہوتے ہیں تلفظ کرنا، بولنا، گفتگو کرنا، چونکہ انسان علم منطق ہی کے ذریعہ اپنی باتوں کو دوسروں کے سامنے بہت ہی شیریں لب و لہجے میں پیش کرتا ہے اور مخاطب کے قلب کو اپنی طرف مائل کر لیتا ہے ۔ اس لئے اس کو منطق کہا جاتا ہے۔

منطق کا وجود:

پہلی اور دوسری صدی ہجری تک مسلمان علم منطق سے ناآشنا اور بے بلد تھے دور دور تک علم معروف سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا،مسلمان اپنے عقل سلیمہ کی بنیاد پر قرآن وحدیث سے افاده و استفادہ کیا کرتے تھے مگرجب اسلام کا سورج ظہور پذیر ہوا اور عرب کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں اپنی کرنوں کو بکھیرنے لگا تو یونان کے باشندوں نے اسلام کی حرمت کو پامال کرنے کیلئے ایک منصوبہ بنایا اور منطقی پر زور سے حملہ آور ہونے کی کوشش کی لیکن مسلمان ان کی چال بازی سے واقف ہو گئے اور اس مقولہ ” الحديد بالحدید یفلح ” کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اب ان کو انھیں کی زبان میں جواب دیں گے اور منطق پر پذیرائی شروع کردی حتی کہ چھٹی صدی ہجری تک منطق کا دائرہ وسیع تروسیع ہو گیا ۔

معلم اول :

‌ سب سے پہلے جس نے علم منطق کو پروان چڑھایا اور موتیوں کی لڑی میں پروہ کر کتابی شکل میں مقید کیا اس کا نام ارسطاطا لیس تھا جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے چوتھی کڑی کا شاگرد تھا یعنی اس کے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے درمیان صرف تین استاذ کا فاصلہ تھا یہ ٣٨٤قبل مسیح مقدونیہ (یونان کا ایک شہر)کی بستی تاجرہ میں پیدا ہوا اور اٹھارہ برس کے قلیل عرصے میں علم مروجہ سے فارغ التحصیل ہوکر اپنے استاذ افلاطون کے مدرسہ میں ( جو کہ اثنیہ میں ہے) معلم کی حیثیت سے فائز ہوا اس کی وفات ۳۲۲ قبل مسیح میں ہوئی (نصاب المنطق)

علم منطق کی اہمیت:

ہر کوئی تجربہ سے اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ کوئی انسان کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو اسے اپنے کام کو سر انجام دینے میں کسی نہ کسی آلہ کی ضرورت پیش آتی ہے جس کی تنددوی کی بنیاد پر وہ اپنے کام کو پائے تکمیل تک پہونچاتا ہے وعلى هذا القياس علم منطق بھی دیگر علوم کیلئے ایک آلہ کی حیثیت رکھتا ہے جس کی برق سیر کی بنیاد پر ایک عالم اپنی باتوں کو مستحکم کرنے اور مد مقابل کو مغلوب کرنے میں کامیاب و کامران ہوتا ہے بایں وجہ اس کو علم آلہ بھی کہا جاتا ہے اور منطق کی اہمیت کا اندازہ امام غزالی رحمہ اللہ کے اس قول سے بھی لگایا جا سکتا ہے "من لم يعرف المنطق فلاثقة له فى العلوم اصلا”(ملا حسن،نصاب المنطق )یعنی جومنطق نہیں جانتا اسے علم میں بالکل پختگی حاصل نہیں ہوتی ۔

علم منطق کی ضرورت :

دور حاضر میں علم منطق کا سیکھنا اشد ضروری ہے کیونکہ ہر دور میں مخالفین اسلام اسلام کے خلاف انگشت نمائی کرتے رہے اور اپنی بے سود کاوشوں پر عمل پیراں رہے مگراللہ کے فضل سے بزرگان دین نے انھیں کی زبان میں انھیں دانداں شکن جواب دیا اور ان کی بے سودکاوشوں کو غرق آب کر دیا بعینہٖ اس زمانے میں بھی حاسدین اسلام اسلام کے وقار کو مجروح کرنے کیلئے ہمہ دم کوشاں ہیں کوئی حکومت و اقتدار کی بنیادپر اسلام کی حرمت کو پامال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کوئی تخت و تاج کی بنیادپر اسلام کی عزت کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو کوئی سوشیل میڈیا کے ذریعہ اسلام کی عظمت پر انگشت نمائی کررہا ہے الغرض کہ چہار جانب سے اعدائے دین کا ایک‌جم غفیر اسلام کی رفعت کو محوخاک کرنے پر آمادہ ہے،توان سب کو دنداں شکن جواب دینے کیلئے علم منطق ہی ایک ایسا تیغۂ برق سیر ہے جس کی دھار سےاعداۓدین کے وجود کو رخنہ رخنہ کیا جا سکتا ہےاور انھیں ان کی اوقات دکھائی جا سکتی ہے اس لۓ علم منطق کا حاصل کرنا بالخصوص داعی اسلام کیلئے بہت ضروری ہے –

ایک شبہ اور اس کا ازالہ:

مشاہدے سے یہ بات موصول ہوئی کہ بعض لوگ علم منطق سےرو گردانی کرتے ہوئے بزرگان دین کے چند اقوال پیش کرتے ہیں کہ:

امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ "جو شخص علم منطق کو سیکھے اسے اونٹ پر سوار کر کے پورا شہرگشت کرایا جائے اور اس کی خوب پٹائی کی جائے کہ یہ تیری سزا ہے ۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا کہ "میں علما ۓ منطق کا جنازہ نہیں پڑھتا "
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ : تم علم منطق کو سیکھنے میں مشغول نہ ہونا کیونکہ یہ عمر کوضائع و برباد کر دے گا، اس لئے علم منطق کا سیکھنا و سکھانا جائز نہیں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ بزرگان دین کے یہ اقوال ان مناطقہ کے بارے میں تھیں جن کی کتابوں میں صحیح ابحاث کے ساتھ ساتھ غلط اور فضول بحثیں بھی تھیں لیکن چونکہ اس دور میں علمائے کرام نے علم منطق کی از سر نوتشکیل کی ہے اور اس سے غلط ابحاث کو نکال کر صاف و شفاف رموز کو بیان کیا ہے اس لئےاس پر بزرگان دین کے یہ اقوال جاری نہ ہونگے اور مزید اس پر امام غزالی رحمہ اللہ کا قول شاہد عدل ہے ” من لم يعرف المنطق فلا ثقة له في العلوم أصلاً” ۔

مولیٰ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حبیب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ و طفیل علم منطق کو سمجھنے کی صلاحیت عطا فرمائے اور ہمیں دین کا محافظ بناۓ آمین ثم آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راقم الحروف : محمد خالد رضا قادری علیمی
متعلم : دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے