فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
سرخرو وہ جہاں میں ثنا خوان ہے
ذکر سرکار کرتا جو ہر آن ہے
کیسے کہتا ہے ان کو تو اپنی طرح
سارے نبیوں کا جب کہ وہ سلطان ہے
تیرے دربارِ نوری میں اے شاہِ دیں
اپنا بستر لگاؤں یہ ارمان ہے
مصطفی نے کیا چاند کے ٹکڑے جب
سوچ کر آج بھی عقل حیران ہے
ساری دنیا ہے کہتی یہی بالیقیں
ان کا رتبہ زمانے میں ذیشان ہے
لب پہ آنا دورودوں کی ڈالی صدا
یہ بھی ان کی غلامی کا احسان ہے
جس زباں کو کیا ہے نبی نے پسند
اس میں نازل ہوا دیکھو قرآن ہے
استغاثہ سے جو بھی ہے کرتا منع
جان لوں کہ وہ پکا ہی شیطان ہے
میں بھلا ٹھوکریں کھاؤں کیوں غیر کی
جب کہ سایہ فگن ان کا فیضان ہے
آپ کا جس پہ لطف و کرم نہ ہوا
دونوں عالم میں پھر اس کا نقصان ہے
جس بشر کو محبت ہے ان سے وہی
خلد میں جائے گا ان کا اعلان ہے
رب سے سارے نبی کو صحیفے ملے
مصطفیٰ کو ملا جو وہ قرآن ہے
حشر میں کاش آقا کہیں اے مجیب
خلد میں چل مرا تو ثناء خوان ہے
از قلم
مجیب الرحمٰن ثقافی
ڈںڈئئ گڑھوا جھارکھنڈ
متعلم جامعہ مرکز ثقافتہ السنیہ الاسلامیہ کیرلا انڈیا