خانقاہی نظام(قسط:۲)
ازقلم: خلیل احمد فیضانی
پہلے زمانے میں خانقاہی مزاج انسان مخلوق خدا کے لیے راحت و آرام کا سبب ہوا کرتا تھا…..جہاں کہیں خلق خدا کو درد و کرب میں پاتافورا سے پیشتر اس کی چارہ سازی میں مشغول ہوجاتا..انسان تو انسان رہا کسی کتے کو بھی پیاسا دیکھتا تو اسے بھی پانی پلاتا اور اس کے آرام کے بندو بست کی ہر ممکن سعی کرتا……-
ایک بزرگ کے تعلق سے "تذکرۃ الاولیاء”میں منقول ہے کہ وہ اپنے بچپنے میں پڑھنے کے لیے مدرسہ تشریف لے جارہے تھے….. کہ راستے میں ایک گدھا دیکھا جو زمین پر ادھ مرا پڑا تھا اور اس کے بدن پر اس قدر زخم بھی آۓ ہوۓ تھے کہ جنہیں کوے بآسانی نوچ رہے تھے…,ان کو اس گدھے کی مجبوری پر ترس آیا ,انہوں نے اپنی قیمتی دستار کو پھاڑ کر اس گدھے کے زخموں پر پٹی نما بنا کر باندھ دیا…….لکھا ہے کہ یہ عمل اللہ تعالی کو اتنا پسند آیا کہ صرف اسی ایک عمل کی وجہ سے اللہ تعالی نے انہیں خلعت ولایت عطا فرمادی……….-
آج اس دور کا تقابل اس عہد کے مجاوروں و خانقاہیوں سے کرکے دیکھیں……رات دن کا فرق نظر آۓ گا…-پہلے زمانے میں خانقاہوں سے غریب و مسکین کی معاونت کا درس دیا جاتا تھا…. باطن کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ظاہری ضروریات کا بھی خیال رکھا جاتا تھا…اولیاء کرام کا یہ وطیرہ رہا تھا کہ وہ بلا تفریق دولت مند و غریب ہر ایک کی عزت کرتے بلکہ غریب کی عزت افزائی کو ترجیح دیتے..حضور غوث اعظم رحمہ اللہ تعالی کے تعلق سے آتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کہیں تشریف لے گئے اور جو شخص اس گاؤں میں سب سے زیادہ غریب تھا اس کے ہاں قیام فرمایا…جتنے بھی تحفے تحائف لوگوں نے آپ کو پیش کیے تھے رخصت ہوتے وقت سارے آپ نے اپنے اس غریب مرید کو عنایت فرمادیے…سبحان اللہ! مگر آج کا سچ یہ ہے کہ غریب مرید کو نظر انداز کیا جاتا ہے-کمزور اور دکھوں کا مارا مرید پیر صاحب سے مصافحہ بھی کرسکے یہ بھی بہت بار ممکن نہیں ہوپاتا…-اسی سے ملتی اور دل فگار بات اخیر میں کہوں گا اور وہ یہ کہ جو پیر صاحب اس دنیا میں چند لوگوں کی بھیڑ کو بہانہ بناکر جس مرید سے مصافحہ بھی نہیں کرتے ہوں……. وہ پیر صاحب میدان محشر میں اس مرید کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے جائیں اس خول سے مرید صاحب کو باہر آجانا چاہیے؟
نوٹ:خانقاہیوں و مجاوروں سے وہ افراد مراد ہیں جو اصول شرع کی نہ خود پیروی کرتے ہیں اور نہ ہی اس طرف اپنے مریدین و متوسلین کو متوجہ کرتے ہیں-