خانقاہی نظام (قسط:۱)
ازقلم : خلیل احمد فیضانی
ایک وقت وہ بھی تھا جب خانقاہوں سے مجاہدین میدان تیار کیے جاتے تھے….انہیں جہاد بالنفس کی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے بھی تیار کیا جاتا تھا…حضرت عبد اللہ ابن مبارک رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ کے مثالی کارنامے اس پر شاہد عدل ہیں-بڑی معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج ہماری خانقاہوں میں وہ بات نہیں رہی جو ادوارِ اسلاف میں ہمیں نظر آتی تھی-
پہلے خانقاہ اس درس گاہ کا نام تھا جس میں داخل ہونے والا شخص اپنے قلب پژمردہ وفکر شوریدہ کو مزکی کرکے واپس لوٹتا تھا جب کہ آج جیب خالی کرکے واپس کبھی نا جانے کی گویا قسم کھاکر الٹے پاؤں پلٹتا ہے-غارت ہوں وہ ملت فروش جنہوں نے اس مقدس مشن کے تقدس کو پامال کیا اور اسے اپنی دنیا کمانے کے لیے استعمال کیا….آج ہر طرف سکون کی تلاش ہے,لوگوں کو ہر چیز میسر ہے- گاڑی ہے… بنگلہ ہے…جائداد ہے مگر سکون ندارد…اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو شے منبع سکون تھی…. جہاں سے طمانیت وسکون کے سوتے پھوٹتے تھے… دین فروشوں نے ان منابع کو غلط مصارف میں جکڑ دیا..اب بھلا سکون کہاں سے حاصل ہو….-
خانقاہ ایک ولی ساز کارخانہ ہے…اور یہ وہ تقدس مآب مقام ہے جہاں سے شریعت و طریقت کی ضیاء پھیلتی ہے…یہاں سے گم گشتگان راہ کو چشمۂ ہدایت نصیب ہوتا ہے…یہاں علم و عمل کی بزم سجتی ہے….اخلاص و وفا کے چراغ روشن ہوتے ہیں….غرض یہ کہ خانقاہ روحانیت و للہیت سے عبارت مقام کا نام تھا…مگر آج اسے غلط مصرف میں استعمال کیا جارہا ہے…الا ماشاء اللہ…-
آقاﷺ کی بعثت سے پہلے جس طرح یہود جہلاے قوم کو بےوقوف بنا کر آیات الہیہ کو فروخت کرکے اپنی دنیاداری چلاتے تھے بعینہ آج گدی نشینان خانقاہ اسی روش پر گامزن نظر آتے ہیں کہ لوگوں کو اللہ کے ولی کی عقیدت میں پھانس کر ان سے پیسے ہڑپنے میں بلکل دریغ نہیں کرتے…یہ بے ایمانی و دنیا پرستی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
گدی نشیں حضرات اگر اصول شرع پر کار بند ہو تب تو مسئلہ ہی کوئی نہیں بنتا مگر میں جن تیرہ بختوں کے بارے میں بات کررہا ہوں ان کا حال یہ ہے کہ وہ اصول شرع کجا علم دین کے ابجد سے بھی ناآشنا ہوتے ہیں….ایسے لوگ جب اتنی مقدس جگہوں پر قابض ہوجاتے ہیں تو ظاہر ہے ان مقامات مقدسہ کا مس یوز ہونا ہی ہے…-