از :۔ ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، حیدرآباد
ہمارے اسلاف علمی، عملی اور روحانی طور پر اعلی و ارفع مقام و منصب پر فائز ہونے کے باوجود اپنے کو نہ صرف حقیر و فقیر سمجھتے تھے بلکہ جانتے اور مانتے بھی تھے جب کہ دنیا نے ان کی علمی جلالت، عملی قوت اور روحانی طاقت کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ احترام بھی کیا ہے۔ لیکن آج ہماری غفلت کا یہ عالم ہے کہ کسی علم و فن کے مبادیات سے متعلق بھی برائے نام معلومات رکھنے کے باوجود اپنے کو سب سے اعلی و ارفع سمجھنے لگے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہمارا حقیقی مقام وہ ہے جس کا اظہار لوگ ہماری غیر موجودگی میں کرتے ہیں ہمارے اپنے آپ کو بہتر سمجھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں اپنے کو اعلی و دیگر کو ادنی سمجھنا شیطانی روش ہے جو درحقیقت سراسر جہالت و سفاہت پر مبنی ہے اور یہ روش انسان کے حق میں سم قاتل ہے چونکہ جب تک انسان کو اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کا ادراک نہیں ہوگا اس وقت تک سے اپنی اصلاح کی توفیق نہیں ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی تقصیر و کوتاہی کا اعتراف کرنا خاصان خدا کا ہمیشہ سے وصف خاص رہا ہے ۔ بیشتر اصلاحی تحریکات کے ناکام ہونے کی اہم وجہ بھی یہی ہے کہ ان تحریکات میں فرد کی فکری و عملی اصلاح سے زیادہ اجماعیت پر زور دیا جاتا ہے۔ اصلاح معاشرہ کی کوئی بھی تحریک کیسے بار آور ہوسکتی ہے جس کا علمبردار خود اپنے اور اپنے ماتحتین کے کردار کو اسلامی تعلیمات اور بلند اخلاق سے مزین کرنے میں بری طرح ناکام ہوگیا ہو۔ گھر کے سربراہ کی ذمہداری صرف ضروریات زندگی فراہم کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے بھی اہم اپنے اہل و عیال کو روحانی غذا فراہم کرنا ہے چونکہ ضروریات ِ زندگی سے انسان پروان چڑھتا ہے جبکہ روحانی غذا سے انسانیت فروغ پاتی ہے جس کی بے انتہاء ضرورت آج کے اس ترقی یافتہ انسانی معاشرہ کو پہلے سے زیادہ ہے۔ قرآن مجید اہل ایمان کو پہلے اپنی اور پھر اپنے اہل و عیال کی اصلاح کرنے کا حکم فرماتا ہے۔ علامہ قرطبی ؒ اس قرآنی حکم کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ہم پر فرض ہے کہ ہم اپنی اولاد اور اہلِ خانہ کو دین کی تعلیم و عملی تربیت دیں، اچھی باتیں سکھائیں اور وہ ادب و ہنر جس کے بغیر چارہ نہیں اس کی تعلیم دیں۔ قرآن مجید کے محولہ بالا حکم میں اصلاح معاشرہ کا حقیقی راز مضمر ہے چونکہ انہی افراد سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ جس وقت یہ افراد خود سرکش خواہشات کی پیروی نہیں کریں گے اور ماتحتین کی اسلامی نہج پر تعلیم و تربیت کریں گے تب ہی یہ ممکن ہے کہ وہ لادینی نظریات، ملحدانہ افکار، بے راہ روی اور آوارہ مزاجی سے اپنے اور اپنے اہل و عیال کو بچانے میں کامیاب ہوں نتیجتاً مسلم معاشرہ از خود صالح بن جائے گا۔ مسلم معاشرے میں دوسری منفی سونچ یہ رائج ہوگئی ہے کہ جو کوئی علماء و صوفیا جیسا لباس زیب تن کرے گا یقینا وہ عالم، متقی و پارسا ہوگا۔ ایسا ہونا ضروری نہیں چونکہ تقوی و خداترسی کا تعلق دل سے ہے لباس سے نہیں ۔ ہماری اسی غلط سونچ کا نتیجہ ہے کہ بہت سارے لوگ علماء و صوفیا کا لباس پہن کر معصوم و سادہ لوح عوام کا علمی، فکری، اعتقادی اور معاشی استحصال کررہے ہیں۔ مسلم معاشرہ کی ستم ظریفی و بدقسمتی ہے کہ ہر مسلمان اپنے کو متقی، پارسا ، بڑے بڑے القابات کا مستحق دوسروں کو گمراہ، نافرمان و حقیر سمجھ رہا ہے اور ہر گروہ اپنے آپ کو دوسرے مکتب فکر سے زیادہ حق کا پرستار سمجھ رہا ہے جس کے سبب معاشرے میں بدگمانیاں تیزی سے پھیل رہی ہے جو اخوت و بھائی چارگی کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ یہ اس لیے ہورہا ہے چونکہ آج ہم احتساب نفس یعنی اپنے نفس کا محاسبہ نہیں کرتے۔ ہوشیاری و عقلمندی کا تقاضہ ہے کہ ہر مسلمان دوسروں کے معائب اور خامیوں کی تحقیق و جستجو کرنے کے بجائے اپنے افکار، خیالات اور نیتوں کو درست کرنے، اپنے دل کے آئینہ کو غفلت کی گرد سے مکدر ہونے سے بچانے، اپنے عقیدہ و اعمال کی اصلاح کرنے، اپنی بھلائی کی صلاحیتوں کو نکھارنے، اپنے کردار کو صفات مرضیہ و اخلاق عالیہ سے متصف کرنے اور اپنے دامن کو گناہوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ہر لمحہ مستعد رہے جو زندہ قوموں کی نشانی ہے۔ جس وقت ہم دوسروں کے گریباں میں جھانکنے کے بجائے اپنے عادات و اطوار اور اعمال و کردار کا جائزہ لینا شروع کردیں گے تواس وقت ہم کو پتہ چلے گا کہ ہر انسان مجھے سے بہتر ہے۔ احتسابِ نفس سے مسلمانوں میں پائے جانے والے اختلافات اور مسلم معاشرے میں پائی جانے والی خرابیاں بڑی حد تک ختم ہوجائیں گی چونکہ جب انسان اپنے نفس کا احتساب کرے گا تو اس کو معلوم ہوگا کہ اس کا اپنا کردار کتنا مومنانہ ہے اس طرح اس وقت اسے دوسروں پر انگشت نمائی کرنے کے بجائے اپنی اصلاح کرنے میں عافیت نظر آئے گی لیکن افسوس صد افسوس آج ہمیں دوسروں کی عیب گیری سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ’’نگاہِ عیب گیری سے جو دیکھا اہل عالم کو…کوئی کافر، کوئی فاسق، کوئی زندیق اکبر تھا… مگر جب ہوگیا دل احتساب نفس پر مائل…ہوا ثابت کہ ہر فرزندِ آدم مجھ سے بہتر تھا‘‘۔ مسلم معاشرہ کی مذکورہ بالا تباہ کن حالت کی ایک اہم وجہ مسلمانوں کا اسلامی تعلیمات سے دوری اور اس کی روح کو سمجھنے سے قاصر ہونا ہے۔ عہد صحابہ، عہد تابعین اور عہد تبع تابعین کے بعد جوں جوں زمانہ گزرتا گیا مسلم معاشرہ سے آہستہ آہستہ روحانیت رخصت ہونے لگی اور مسلمان مادیت کی طرف تیزی سے راغب ہوتے چلے گئے۔ تاریخ انسانیت شاہد ہے جو قوم دنیاوی مفادات کے حصول کے لیے آخرت پر دنیا کو ترجیح دیتی ہے، اخلاقی جہاد میں کوتاہی اور عمل میں ریاکاری سے کام لیتی ہے، شکست و ناکامی اس کا مقدر بن
ج
اتی ہے۔ خیر القرون کے بعد یہی حال امت مرحومہ کا ہوا۔ صوفیاء کرام اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ قوموں کے وجود، استحکام اور بقا کا انحصار محض معاشی و اقتصادی خوشحالی پر نہیں بلکہ انسان کے عمدہ اوصاف اور اعلی کردار پر ہے۔ اسی لیے امت مسلمہ کو علمی، روحانی اور اخلاقی پسماندگی سے نکالنے، ان کی مایوسی کو امید، ذلت کو سربلندی، انتشار کو وحدت تنظیم باہمی سے بدلنے اور انہیں دوبارہ رہنمائے عالم بنانے کے مقدس ہدف و مقصد کی تحصیل کے لیے صوفیاء کرام نے انسانی طبائع کے اختلاف اور مختلف نفوس کے مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے خانقاہی نظام کو جلا بخشی جس کی بنا خلوص و للہیت پر تھی اور اس کی روح سخت ریاضات و مجاہدات تھے ۔ اس طرح تصوف و طریقت کے مختلف سلاسل معرض وجود میں آئے۔ جو بلند ہمت صاحبان فکر و تدبر اور قوی روحانی قوت رکھنے والے راہوارِ شوق حضرات محض خوشنودی رب کی خاطر صراط مستقیم پر گامزن رہتے ہیں اور اس راہِ محبت میں حائل ہونے والی مشکلات کی چٹانوں کا صبر و استقامت کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ہمیشہ جد و جہد کرتے رہتے ہیں اللہ تعالی ان مبارک ہستیوں کے حق میں مشکلات و سختیوں کو آسانیوں سے مبدل فرمادیتا ہے اور انہیں ہدایت و معیت کی لازوال نعمت سے مالامال فرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مادی وسائل اور عصری ذرائع ابلاغ و ترسیل نہ ہونے کے باوجود انتہائی کم عرصہ میں سلاسل طریقت پوری دنیا میں پھیل گئے اور لوگ جوق در جوق دامن اسلام سے وابستہ ہوتے چلے گئے۔ لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ اس حقیقت کو سپرد قلم کرنا پڑرہا ہے کہ جب سے نام نہاد اور مفاد و دنیا پرست جعلی پیروں نے حب جاہ و دنیا کو ترک کرنے کی تعلیم دینے والے تصوف کو کاروبار کا ذریعہ بنالیا تب سے مکارم اخلاق کے اعلی معارج کی تعلیم اور روحانی نظام تربیت کے مراکز یعنی خانقاہیں تضادات، اختلافات، خرافات کی آماجگاہ اور تصوف رسمی چیز بن کر رہ گئی۔ نتیجتاًاخلاقی خرابیاں مسلم معاشرے میں تیزی سے پھیلنی شروع ہوگئیں۔ جبکہ ہمارے اسلاف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ غلیظ اخلاق و گھٹیا اطوار کے حامل انسان کو مسلمان کہنا تو درکنار اسے تو یہ بھی زیب نہیں دیتا کہ وہ نبی پاکؐ کا نام مبارک اپنی زبان سے لے۔ پھر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تصوف کی روح سے ناواقف وہ لوگ جو اپنی ذاتی مفادات کے لیے صوفیانہ لبادہ اوڑھ کر معصوم لوگوں سے نذرانے بٹورنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیا ہو انہیں رہبر شریعت اور پیر طریقت کہنا کتنا درست ہے؟ ایسے ہی لوگ ہیں جو امت مسلمہ کو فرقوں اور گروہوں میں بانٹ رہے ہیں چونکہ ان جیسے حضرات کی سونچ اس قدر مختصر و محدود ہوتی ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہی حق پر ہیں اور انہی کا عقیدہ درست ہے باقی سب بدعقیدہ و مشرک ہیں۔ ہمیں بالخصوص خانقاہی نظام سے تعلق رکھنے کا دعوی کرنے والوں کو یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اپنے آپ کو سب سے بہتر سمجھنا خود پسند لوگوں کا شیوہ ہے جبکہ اہل تصوف کا قرینہ ہے کہ ہم سب سے کم تر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عظیم سلطانوں کا رعب و دبدبہ سلطنتوں کے زوال کے ساتھ ہی ختم ہوگیا لیکن عاجزی و انکساری کے مجسم نمونہ ان عظیم درویشوں اور صوفیا کرام کے مزارات پر بلا لحاظ مذہب و ملت آج بھی لوگ بصد ادب و احترام حاضری دیتے ہیں اور ان کے آستانے آج بھی مرجع خلائق بنے ہوئے ہیں۔ جس طرح ڈاکٹر کا کام محض مرض کی تشخیص کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس مرض سے افاقہ پانے کے لیے دوائیں تجویز کرنا اور مریض کو کن کن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے وہ بتانا بھی ہوتا ہے اسی طرح ہر مسلمان، مومن بالخصوص روحانی طبیب (پیر و مرشد) کی مذہبی ذمہ د اری معاشرے میں پھیلی برائیوں کی نشاندہی کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ حکمت و دانائی کے ساتھ ان برائیوں کے خاتمہ کے لیے لائحہ عمل اختیار کرنا بھی ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے لیکن مسلم معاشرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اہل تصوف دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کو بدعقیدہ کہہ کر تذلیل کرتے ہیں تو دیگر مکاتبِ فکر خانقاہی نظام سے وابستہ لوگوں کو قبرپرست، بدعتی اور مشرک کہہ کر ان کی توہین کرتے ہیں اور بزعم باطل یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حق ادا کردیا ہے۔ ہر شخص دیگر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کو نیچا دیکھانے اور غلط ثابت کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کررہا ہے لیکن کسی کو یہ توفیق نہیں ہورہی ہے کہ وہ دیگر حضرات کو ہدف تنقید بنانے کے بجائے اپنے کردار کی اصلاح اور نفس کا احتساب کرے جس کے باعث اسلامی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ جس انسان کو ہوائے نفس اور شیطان کے وسوسوں سے برسرپیکار ہونے کا سلیقہ و طریقہ بھی نہیں معلوم وہ بھی اپنے کو اعلی و کامل اور دوسرے کو ادنی و ناقص کہنے پر مصر نظر آرہا ہے۔ بسا اوقات ہم اپنے امتیازات و خصوصیات اور نیک و پارسا ہونے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے گناہان کبیرہ و فاحشہ بالخصوص غرور و تکبر کے بھی مرتکب ہوجاتے ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ کہ ہم اپنے کیے پر نادم و شرمندہ ہونے کے بجائے اپنی قابلیت پر نازاں رہتے ہیں (العیاذ باللہ)۔ اس طرح کی غلط روش اختیار کرنے سے جو ہمیں نقصان عظیم ہورہا ہے ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہے۔ خودستائی و خود نمائی کی نحوست سے بروز محشر ہمارے نامہ اعمال میں کوئی ایسی نیکی بھی باقی نہیں ہوگی جس کا وزن کیا جاسکے۔اسی لیے قرآن مجید نے مسلمانوں کو قبیح و ناپسندیدہ فعل یعنی خودستائی سے بچنے کا حکم فرمایا ہے چونکہ حقیقت میں پرہیزگار کون ہے وہی ذات بہتر جانتی ہے جو انسانی طبائع کے اسرار، انسان کے بیرونی اعم
ال، اندرونی صفات بلکہ میزانِ خلوص نیت سے بھی واقف ہے۔ قرآن مجید نے خود نمائی و خودستائی سے اس لیے منع کیا ہے چونکہ اپنی پارسائی پر اترانا اور نیکیوں پر شیخی بگھارنا کم ظرفوںکی علامت ہے جبکہ حقیقی مومن وسیع الظرف ہوتا ہے ۔نیکی کرنا اور دریا میں ڈالنا اس کا شیوہ ہوتا ہے۔اگر مسلمان اپنے نفس کا احتساب اور اس کی اصلاح کرنے میں اپنی توجہات مرکوز کرنا شروع کردیں تو اسے اپنی تقصیر و کوتاہیوں اور نقائص و کمزوریوں کا علم ہوگا پھر وہ فسق و فجور کی آلائشوں سے آلودہ اپنے نفس کی اصلاح کی طرف مائل و متوجہ ہوگا ورنہ اس کی پوری زندگی لوگوں کی عیب گیری میں نکل جائے گی اور وہ بروز محشر کف افسوس ملتا رہ جائے گا۔آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔