نتیجۂ فکر: ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادت گنج،بارہ بنکی،یوپی
بر لبِ آقا دعا یا گریہ و زاری رہی
وجہہ اس کی ہم سبھی کی بس گنہ گاری رہی
کیا بتاؤں کے مئے حبِ نبی پی کر مجھے
کیسی سر مستی رہی اور کیسی سرشاری رہی
یا نبی ہم عاصیوں سے اس قدر شدت سے پیار
کے ہماری فکر ہی بس زندگی ساری رہی
کیا عجب ہے کے کسی بھی پھول میں ملتی نہیں
جو نبی کے شہر کے خاروں میں گلکاری رہی
تھے سجے پلکوں پہ دردِ ہجر طیبہ کے گہر
میری ناداری کو حاصل ایسی زرداری رہی
آؤ آؤ دیکھو تو شانِ کریمی کا وہ دن
رحمتوں سے ہیچ جب مشقِ ستم گاری رہی
شہرِ طائف میں لبِ آقا دعا کرتے رہے
اور جسمِ پاک سے خوں کی ندی جاری رہی
میں سوائے نعت کے کچھ اور کہہ سکتا نہیں
وقفِ شانِ شاہِ طیبہ میری فنکاری رہی
جب ملا جو کچھ ملا بے مانگے ہی مجھ کو ملا
میرے آقا کی ذکی یہ شان درباری رہی