تحریر: محمد کفیل رضا، شراوستی یوپی
از قیام دنیا تا یوم الان بہت سے باطل فریقوں نے مذہب اسلام کے لہلہاتے ہوئےگلستے کے چمن کے زینت پر اپنے دست حراص کو دراز کیا اور دین اسلام کے مصلب ستون کو ڈھادینے پر آمادہ ہوئےو آبروئے دین کو پاش پاش کرنے کے خواہاں ہوئے تو اللہ رب جل شانہ تقدس و تنزع وتجبر نے ضرور کسی ایک ایسے مجدد کو مبعوث فرمایا جس نے انکے دست حراص کو کاٹ کر رکھ دیا اور کسی کی مجال نہ رہی کہ وہ اس فرستادۂ خدا کو روک سکے یوں ہی جب انگیریزی حکومت کے ظلمت سے پر گھٹا گھور ابر ملک ہند پر گردش کر رہے تھے جسکی گرج سے ہندوستان کے باشندوں کے قلوب حرس و غم سے دھڑکنا بند کردئے تھے اور کچھ دولت و ثروت کے حریص مولویوں نے ان کے تمام ناپاک احکام کو جائز قرار دے دیا جس سے خیر کی امید لگائے ہوئے باشندۂ ہند کے آرزو ٹوٹے ہوئے مالے کی موتیوں کی طرح بکھر گئے تو اب ضرورت پڑی ایک ایسے مجدد اعظم کی جو اپنی قلمی جوہر سے ارادۂ بد کو مٹا کر رکھ دے ضرورت پڑی ایک ایسی ذات کی جو اپنی علمی لیاقت سے منشأ باطلہ کو انکی اوقات دکھا دے ضرورت پڑی ایک ایسے اعلیٰ نگینے کی جو سخت سے سخت چٹانوں کو تراش کر رکھ دے جو نہ علمی حیثیت سے ضعیف ہو نہ دولت و ثروت کے کمی کا شکار ہو جو حق کے لئے فنا فی اللہ ہو ناجانتا ہو اور عدو دین کے سر کو کچل کر سپرد خاک کرنا بھی جانتا ہو جو شب و روز بندہ خدا کو ترغیب حق کرے اور دین کے باغیوں کے قصرۂ محل کو متزلزل کرنے کی قوت بھی رکھتا ہو تو اللہ ربّ العزت نے ان تمام مذکورہ چیزوں کے جامع الشیخ العالم العامل المعلم المحدث المجدد المفتی صدرالعلماء یکتائے زمانہ یگانہ روزگار اعلیحضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کو مبعوث فرمایا جب کہ (١٠ شوال المکرم ١٢٧٢ھ بمطابق ١٤ جون ١٨٥٦ء بموافق ١١ جیٹھ سدی ١٩١٣ سمبت بوقت ظہر روز شنبہ ) کا شمس عروج سما پر اپنی نورانیت کے جوہر ذرخیز زمین کے ہر حصہ پر بکھیرے ہوئے تھا اور بندۂ خدا بارگناہ سے پر اپنے سروں کو مالک حقیقی کے بارگاہ عالی جاہ میں زیر کئے ہوئے تھے اور شہر بریلی کےکونچے کونچے آپ کی آمد کے منتظر تھے اس حسیں لمحے میں خالقِ اکبر نے احمد رضا کو بھیج کر اس کے افضلیت میں چار چاند لگا دئیے اور جو بریلی بریلی تھا وہ بریلی شریف کے نام سے موسوم ہوگیا اور سنیوں کے دل کی دھڑکن بن گیا میرے رضا کی ولادت سنیوں کے لئے جہاں باعث مسرت تھی وہیں پر دشمنان اسلام کے لیۓ زحمت
آپ کا نسب شریف
اعلیحضرت امام احمد رضا خان بن مولینا نقی خان بن مولینا رضا علی خان بن مولینا حافظ کاظم علی بن مولینا شاہ محمد اعظم خان بن مولینا محمد سعادت یار خان بن مولینا محمد سعید اللہ خان رضی اللہ عنہم اجمعین
آپ کا پیدائشی نام و تاریخی
آپ کا پیدائشی اسم مبارک محمد ہے اور تاریخی نام المختار ہے آپ کے جد امجد نے آپ کا نام احمد رضا رکھا
بسم اللہ خوانی
جب آپ اس قابل ہو گئے کہ تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جائے تو آپ کے جد امجد نے بسم اللّٰہ خوانی کے لئے استاذ کے پاس لے گئے استاذ نے تسمیہ کے بعد حسب معمول ا با تا پڑھایا اور آپ سر تسلیم خم کئے ہوئے پڑتے گئے لیکن جب استاذ نے لام الف پڑھنے کو کہا تو آپ خاموش ہو گئے استاذ نے کہا میاں لام الف پڑھو لیکن آپ نے کچھ نہیں پڑھا آپ کے جد امجد وہاں حاضر تھے فرمایا بیٹا استاذ کا کہنا مانو آپ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پڑھنا شروع کیا لیکن جد امجد کی طرف مستفسرانہ نگاہ ڈالی جس سے آپ کے جد امجد اللہ کی دادہ فراست سے سمجھ گئے کہ احمد رضا یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ بیان تو مفردات کا ہے تو پھر مرکب لفظ کیوں استعمال کیا گیا ہے آپ کے جد امجد نے فرمایا بیٹا سنو آپ نے شروع میں جو الف پڑھا وہ حقیقتاً حمزہ تھا اور یہ جو اب پڑھ رہے ہو یہ الف ہے چونکہ الف جو ہوتا ہے وہ ساکن ہوتا ہے اور ساکن حرف کو بغیر کسی دوسرے حرف کے ساتھ ملاۓ پڑھا نہیں جا سکتا اس لئے الف کو لام کے ساتھ متصل کر کے پڑھا جاتا ہے تو پھر میرے امام نے کہا کہ الف کو صرف لام کے ساتھ ہی کیوں پڑھا جاتا ہے اور بھی حروف تو تھے انکے ساتھ کیوں نہیں متصل کیا گیا الف اور لام کا ایسا کیا گہرا رشتہ ہے ؟ آپ کے جد امجد نے فرمایا بیٹا سنو الف اور لام سیرۃ اور صورۃ دونو طرح سے ایک دوسرے کے مشابہ ہیں الف اور لام لکھنے میں ایک دوسرے کے ہم شکل ہے مثلاً لا یہ صورۃ مشابہ ہے اور دوسرا سیرۃ کچھ یوں مشابہ ہے مثلاً الف لام کا قلب ہے اور لام الف کا قلب ہے مثلاً ا ل ف کہ اس میں الف کے بیچ میں لام ہے اور ل ا م اور اس میں لام کے بیچ میں الف ہے یعنی یہ کہ الف و لام ایک دوسرے کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتے اور پھر یہ شعر پڑھا
من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تا کس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری یعنی یہ کہ الف و لام ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں کہ میں تو ہوا تو میں ہوا میں جسم ہوا تو جاں بنا تاکہ کوئی اس کے بعد یہ نہ کہے کہ میں اور ہوا تو اور ہوا
اس حاضر جوابی سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کا بے قرار قلب کو سکون قلبی کا حصول ہوا آپ کے جد امجد نے باتوں ہی باتوں میں آپ کو اکملیت کے اس منصب پر فائز فرما دیا جو مستقبل میں لوگوں نے اپنی چشمہاۓ دنوی سے مشاہدہ فرمایا آپ نے چار سال کے عمر شریف میں قرآن مجید کا ناظرہ مکمل کرلیا اور چھ سال کی عمر شریف میں ماہ ربیع الاول شریف کے حسین موقع پر میلاد شریف پڑھا اور اکیس علوم اپنے والد محترم علامہ نفی خاں علیہ الرحمہ سے حاصل کیا اور فن نحو میں پڑھائی جانے والی مشہور کتاب (ھدایۃ النحو) کا عربی زبان میں شرح فرمائی اورآپ نے بائیس علوم سے لےکر اٹھاون علوم تک خداداد بصریت سے بغیر کسی استاذ کے بذات خود حاصل کیا اور اس میں مہارت تامہ بھی حاصل کی اور آپ تیرہ سال دس ماہ کی عمر شریف میں فارغ التحصیل ہوئے (دستار فضیلت) اور اسی سال رضاعت کے مسئلہ پر پہلی بار فتویٰ نویسی فرمائی جو بالکل صحیح تھا اس نوعیت پر آپ کے ابا حضور نے آپ کو فتویٰ نویسی کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز فرما دیا اور علماء کا بیان ہے کہ آپ کبھی بھی کتاب کے چوتھائی حصہ سے زیادہ استاذ سے نہیں پڑھا بلکہ خود پڑھتے اور سنا بھی دیتے
یہ ہے میرا رضا جس نے اتنی کم عمری میں علم کے تمام منازل طے کرلیا جس دن سے میرے رضا احمد رضا خان نے فتویٰ نویسی کے اعلیٰ منصب پرفائز ہوئے زمانہ میں پھیلے ہوئے تاریکیوں کے بادل کو چاک کر دیا انگریزی حکومت کے غلط احکامات کی نفی فرمائی ٹٹوں مولویوں کے نافذ کردہ فتاوے کو پھاڑ پھینکا اور زمانہ کو بتا دیا کہ حق و باطل میں فرق کیا ہے کبھی اگر حکومت نے غیر شرعی کام کو عمل میں لانے کا ارادہ کیا تو آپ نے حکومت کے بر خلاف میدان میں تن تنہا اتر پڑے بے خوف و خطر رد عمل فرمایا اور حکومت کو مجبوراً اپنا فیصلہ بدلنا پڑا اور آپ کے
فتاوے ان کے احکام پر مقدم رہے اسی لئے آج بھی جب زمانے کے لوگ ہر چہار جانب سے مایوس و نا مراد ہو جاتے ہیں تو انکی نگاہیں بریلی شریف کی جانب ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہی ہوتی ہیں کہ بریلی شریف کا فتویٰ ہماری ضرور اصلاح فرمائےگا یہ رضا کا فیض عام ہے کہ آج بھی مذھب باطلہ کے دانتوں کے نیچے پسینہ آ جاتا ہے جب ان کا سامنا رضا کے غلاموں سے ہوتا ہے میرے رضا نے اپنے چاہنے والوں کو وہ ہتھیار فراہم کیا ہے جس کی کوئی بھی قوم تاب نہ لا سکے نبی سے سچی محبت کس طرح کرنا ہے اپنی ذات سے سکھایا ہے کہ اے لوگوں اگر تم میرے دل کے دوٹکڑے کر کے دیکھوگے تو ایک پر لا الہ الا اللہ لکھا ہوگا تو دوسرے پر محمد الرسول اللہ ہوگا
خدا ایک پر تواک پر محمد
اگر قلب اپنا دو پارہ کروں میں
میرے امام نے سنیوں کو اگر مسائل میں کوئی مشقت پیش آئی تو کئی جلدوں پر مشتمل لازوال شہرت یافتہ فتاویٰ رضویہ عطاء کیا قرآن مجید کا فارسی میں ترجمہ سب سے پہلے حضرت شیخ سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا اور اردو میں سب سے پہلے میرے امام احمد رضا خان نے کیا ہے یعنی کنز الایمان بھی انہیں کی عطاء کردہ ہے بہت سے لوگوں نے اردو میں قرآن کا ترجمہ کیا لیکن جس طرح میر رضا نے کیا اس طرح کسی نے نہیں کیا اور سب سے بڑی نعمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارگاہ عالی میں قبول ہونے والا سلام مصطفیٰ جانے پے لاکھوں سلام عطاء کیا المختصر عند الضرورت میرے رضا نے سنیوں کو سب کچھ دیا تو اب باری آئی سنیوں کی کہ وہ بھی کچھ خراج عقیدت پیش کریں
تو سارے سنی اسی سلام میں ایک شعر زیادہ کر دیا اور پکار اٹھے یا سیدی و سندی آقائی و مولائی
ڈال دی قلب میں عظمت مصطفی
سیدی اعلٰی حضرت پے لاکھوں سلام
بیشک میرے رضا سینوں کے سینے میں ڈھڑکتے ہوئے دل ہیں وہ دل ہیں رضا جسم میں روح پرورش پاتی
آج بہت سے لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر احمد رضا کو نہ مانے تو کیا سنی نہیں ہوگے بالکل ہوگے صد فیصد ہوگے لیکن تم سنی کہے نہیں جاؤگے وجہ یہ ہے کہ ہر چیز کی ایک علامت ہوتی ہے ایک پہچان ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ چیز پہچانی جاتی ہے اگر علامت ختم گویا اس چیز کا وجود ختم یوں ہیی سنیوں کی پہچان احمد رضا ہے اگر کسی نے احمد رضا کو نا مانا گویا اس نے اپنے کو سنی کہلوانے کا حق کھو دیا اس لیئے مؤمن ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اگر اپنے آپ کو سنی کے نام سے موسوم کرانا ہے تو احمد رضا کو ماننا لازم و ضروری ہے
یہ رضا کےنیزکی مار ہے کہ عدو کے سینہ میں غار ہے
چارہ جوئی کا وار ہے کہ یہ وار وار سے بھی پار ہے