خانوادۂ رضا

امام اہلسنت ،تاج دار عشق ومحبت ہیں،جلوہ گاہ فقہی بصیرت

از مفتی قاضی فضل رسول مصباحی
دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم، برگدہی ، ضلع مہراج گنج یوپی۔

کاٸنات ارضی پر انسانی وجود کا ورود مسعود ہوتا رہتا ہے ،اپنی اپنی حیات مستعار کی تکمیل کے بعد دار آخرت کی طرف منتقل بھی ہو جاتا ہے،ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کے متعلق اہل دنیا کو کچھ معلوم نہیں ہوتا،تا ہم ان میں کچھ ایسے باکمال ہوتے ہیں جو اپنے عظیم کار ناموں کی بنا پر ایسی روشن وتابناک زندگی گزارتے ہیں کہ اپنے تو ان کے کارہاۓ نمایاں سے واقف ہوتے ہی ہیں۔اغیار بھی ان عظیم ہستیوں کے فضاٸل ومحاسن کا اعتراف کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔
انھیں چند شخصيات میں ایک عظیم اور عبقری حیثیت کی حامل شخصیت تاج دار عشق ومحبت،امام اہل سنت ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ والرضوان کا نام نہ صرف ملکی سطح پر مشہور ہے۔بلکہ عالمی سطح پر انہیں یاد کیا جاتاہے۔

١٢٧٢ھجری میں آپ نےاس عالم رنگ وبو کو اپنے وجود مسعود سے رونق بخشی ،١٣٤٠ ھجری میں حکم الٰہی پر لبیک کہکر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔

ہجری سن کے اعتبار سے آپ کے وصال کے مکمل ایک سو تین سال ہو جاتے ہیں ۔مگر جشن صد سالہ کی تکمیل کے بعد اس سال کا عرس رضابھی اپنی سابقہ روایات پر منعقد ہوتانظر نہیں آتا ہے ۔بلکہ لگتایہ ہے کہ زاٸرین اپنے گھر اور وطن ہی میں رہ کر اپنی خراج عقیدت سرکار اعلیٰ حضرت کی بار گاہ میں نذر کریں گے۔گرچہ یہ عمل پھر انتہاٸ تکليف دہ ہوگا ۔مگراب بھی کورونا وبا کے خطرات کے پیش نظر ایسا کرنا تقاضاۓ وقت وزمان ہے،جن پر گامزن رہنا ہم سب کے شایان شان ہے۔

اس مضمون میں اعلیٰ حضرت کے تقریبا پچپن علوم وفنون پر مہارت تامہ کا ذکر کرنا مجھ ناچیز سے اس وقت ممکن نہیں ،اس لۓ آج کی اس مختصر سی تحریر میں آپ کی فقہی بصیرت ومہارت سے متعلق ایک مختلف الحکم مسٸلہ کی وضاحت آپ ہی کے بیان کردہ جزٸیہ کی روشنی میں کروں گا ۔اسی سے واضح ہو جا ۓگا کہ آپ کی فقہی بصیرت کس اعلیٰ وارفع درجہ کی تھی ،تبھی تو اپنے وبیگانے آپ کی فقہی بصیرت کی تحسین می رطب اللسان نظر آتے ہیں ۔
چنانچہ اسی طرح کا ایک تحقیقی مسئلہ آپ کی فقہی کمال کا نشان امتیاز ہے ۔
روزہ دار کے کان میں پانی ازخود چلا جاۓ تو بالاتفاق تمام فقہا ٕکے نزدیک روزہ فاسد نہیں ہوگا مگر روزہ داراگر پانی کان کے اندر پہونچاۓ تو بعض فقہا کے نزدیک روزہ فاسد نہیں ہوگا اور بعض فقہا ٕ کے نزدیک روزہ ٹوٹ جاۓگا اور یہی راجح ہے ۔قاضی خاں اور امام احمد رضا اسی کے قاٸل ہیں ،آیۓ ہم اس مسٸلہ کو ہدیٸہ قارٸین کرتے ہیں کہ آپ بھی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی فقہی بصیرت سے ان کی عقیدت کا چراغ اپنے دلوں میں روشن رکھیں۔
حدیث پر غور کرنے سے ہمیں اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے بیان کردہ احکام کا وہ ضابطہ مل جاتا ہےجس پر ہم فساد صوم وعدم فساد صوم کےاحکام کی بنا کرسکتےہیں بلکہ فقہا ٕ کے نزدیک بھی اصل معیار یہی ہےجیساکہ کتب فقہ سے واضح ہے ،وہ حدیث یہ ہے
”انماالافطار ممادخل ولیس مما خرج“
روزہ اس چیز سے ٹوٹتا ہے۔جو جسم میں داخل ہواور اس چیز سے نہیں جو جسم سےباہر آۓ۔
اور اس عموم سے جن صورتوں کی تخصیص کی گٸ ہے ،شریعت نے انکو بھی خود ہی بیان کر دیاہے۔
مذکور ہ ضابطہ کےمطابق کان میں پانی ڈالنے سے روزہ فاسدہو جاٸیگا کیو نکہ جسم یعنی کان کےاندر پانی داخل کیاگیااسی کےقاٸل اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اور قاضی خان علیہ الرحمہ ہیں
اور صدرالشریعہ مفتی امجد علی وصاحب ھدایہ علامہ مر غینانی علیھما الرحمہ روزہ فاسد نہ ہونے کے قا ٸل ہیں کہ ان کے نزدیک فساد روزہ کی علت صورةً و معنیً افطار کا نہ پایا جانا ہے اور تصحیحات ہر دو جانب ہیں ۔تاہم پانی خود بخود داخل ہو جاۓ توبالاتفاق کسی کے ہاں روزہ
فاسد نہ ہوگا کہ صاحب ہدایہ کے نزدیک علت فساد یعنی معنیً و صورةً افطار کا نہ پایاجانا ہےاور قاضی خان کے نزدیک جسم یعنی کان کے اندر پانی کا خود کے فعل سے نہ داخل ہوناہے
چنانچہ فتح القدیر میں ہے
”قال ۔۔القاضی خان۔۔ اذا خاض الما ٕفدخل اذنہ لا یفسد صومہ وان صب الما ٕفیھا اختلفوا فیھا والصحیح الفساد لانہ موصل الی الجوف بفعلہ فلا یعتبر فیہ صلاح البدن کمالوادخل خشبة غیبھا الیٰ آخر کلامہ وبہ تندفع الاشکالات ویظھر ان الاصح فی الما ٕ التفصیل الذی اختارہ القاضی خان رحمہ اللہ
قاضی خان رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا جب آدمی پانی میں اتر جا ۓاور پانی خود بخود کان میں چلا جاۓ تو روزہ نہیں ٹوٹتا اور اگر کوٸ اپنے کان میں خود پانی ٹپکاۓ تو اس بارےمیں اختلاف ہے ۔لیکن صحیح قول یہ ہےکہ روزہ ٹوٹ جاۓ گا کیونکہ اس نے اپنے فعل سے پانی پہنچایاہے ۔
لھٰذا ۔اس وقت اس کے مفید بدن نہ ہونے کااعتبار نہ ہوگا جیسا کہ اس صورت میں نہیں ہوتا جب کو ٸ شخص اپنے پاخانہ کی راہ میں لکڑی داخل کرے اور اس کواس کے اندر غاٸب کردے۔اس سے معلوم ہوا کہ پانی میں وہ تفصیل جو قاضی خان نے اختیار کی ہے وہی زیادہ ظاہر اور راجح ہے
اور قاضی خان بلند پایہ فقیہ ،مجتھد فی المساٸل ،فقیہ النفس اور طبقات فقہا ٕ میں تیسرے طبقہ کے فقیہ ہیں ،اس لۓ اعلیٰ حضرت نےاسی قول کو راجح اور اصح قرار دیا۔اور مساٸل کی قوت دلاٸل کی صلابت پر ہے لھٰذا ہمیں اسی پر عمل کرنا چاہۓ
علاوہ ازیں کان میں خود بخود پانی کے داخل ہونے کی صورت میں عدم فساد کی توجیہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ایسا ہوناآدمی کے اختیار سے باہر ہے ،اور روزہ میں نہانے کی ضرورت ہوسکتی ہے،فرض،سنت اور مباح کےطورپر بھی،
ٹھنڈک حاصل کرنے کی غرض سے اباحت ہی ہے ۔پس غیراختیاری ہونے کے سبب شرعاً فساد صوم کا حکم نہیں ہوگا جیسے مکھی اگرخود بخود روزہ دار کے حلق میں چلی جاۓ تو ازروۓ استحسان اس کاروزہ نہیں ٹوٹتا کہ اس سے احتراز ممکن نہیں ۔
جب دو قول دو اماموں سےمنقول ہو اوردونوں قول ایک ہی لفظ تصحیح سے مصحح ہو تو ترجیح اس قول کو ہوگی جس کا قایٔل مرتبہ میں بلند ہوگا’ یہی رسم افتاء ہے’ لہٰذا قاضی خان کی تصحیح صاحب ہدایہ کی تصحیح پر فوقیت رکھے گی’صاحب ہدایہ پانچویں طبقہ کے فقہاء میں ہیں’جبکہ قاضی خان تیسرے طبقہ کے فقہاء میں شامل ہیں’ایسا ہی شرح العقود میں ہے
اس طرح کی فقہی باریکیاں آپ کے فتاویٰ میں بکثرت ملیں گی۔ ہزارہا فتاویٰ ، کتب اور رسائل اس کے بین ثبوت ہیں۔ جو رہتی دنیا تک امت کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں گی۔اللہ تعالی ہم سب کو ان سے مستفید ہونے کی توفیق بخشے ۔۔اٰمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے