از:محمد زاہد رضا، دھنباد
متعلم، جامعہ اشرفیہ، مبارک پور
(رکن: مجلس، علماے جھارکھنڈ)
گزشتہ روز میں ٹویٹر دیکھ رہا تھا کہ اچانک زیر نظر ایک ویڈیو آئی جسے دیکھ کر میں سہم گیا، آنکھیں پھٹی کے پھٹی رہ گئیں، دست و پا کانپنے لگے اور جسم لرزہ براندام ہوگیا، اس ویڈیو میں دو آدمی تیز دھار ہتھیار سے ایک مسلم نوجوان کو جس کے چہرے پر داڑھی تھی(ہو سکتا ہے وہ عالم دین ہو) زد و کوب کر کے موت کی نیند سلا دیا اور "جے شری رام” جے شری رام” کے نعرے لگا کر چلے گئے۔ اتنی بے رحمی کے ساتھ کوئی جانور کو بھی نہیں مارتا ہے جتنی بے رحمی کے ساتھ ان بھگوا غنڈوں نے اس شخص کو مارا۔
یہ ویڈیو کسی "طالبان” یا "پاکستان” کا نہیں تھا، بل کہ یہ ویڈیو ہمارے سیکولر ملک ہندوستان کے صوبہ تری پورہ کا تھا، جہاں تقریباً ایک ہفتہ سے مسلموں پر کوہ الم توڑے جارہے ہیں، مسلموں کو زد و کوب کر کے ان کی دوکانوں اور مکانوں کو جلایا جارہا ہے، مساجد نذر آتش کر کے شہید کیے جا رہے ہیں، قرآن مجید کے نسخہ کو جلایا جا رہا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیاں کی جا رہی ہیں،مسلم مخالف نعرے لگائے جارہے ہیں اور یہ سب پولیس کی موجودگی میں ہورہا ہے، پولس حسب معمول وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور آر، ایس، ایس کے غنڈوں کے سامنے سرخم کرتے ہوئے نظر آرہی ہے، جو انتہائی افسوس ناک اور شرم کی بات ہے۔پولیس کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کی حفاظت کرے، اگر کہیں فساد یا لڑائی ہوجائے تو فوراً اس پر قابو پانے کی کوشیشیں کرے اور مجرمین اور فسادیوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرے، لیکن یہاں اس کا برعکس ہوا اور یہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہی ہوتا ہے۔
تقریباً ایک ہفتہ سے تری پورہ میں مسملوں کا قتل عام کیا جارہا ہے، مسلموں کو جانی و مالی نقصان پہنچایا جارہا ہے، مسلم خوف ہراس کے سایہ میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں، مسلم عورتوں کی زندگی خطرے میں پڑی ہوئی ہے، لیکن ابھی تک کسی گودی میڈیا نے اسے اپنے چینل پر جگہ دینا مناسب نہیں سمجھا، زرخرید میڈیا نے اس پر ڈبیٹ بھی نہیں کروایا اور نہ ہی کسی نے اسے بریکنگ نیوز بنایا، کیوں کہ یہاں مظلوم مسلم اور ظالم بگھوا داری غنڈے ہیں، یہی اگر کسی مسلم نے کسی غیر مسلم کو مار دیا ہوتا یا پھر اس کی دوکان کو جلا دیا ہوتا تو گودی میڈیا میں ایک زلزلہ برپا ہوجاتا، ان کی سانسیں پھولنے لگتیں اور دلال نیوز اینکرز برساتی مینڈکوں کی طرح ٹرا ٹرا کر مسلموں کو دہشت گرد ثابت کرنے اور ان کو بدنام کرنے میں لگ جاتے اور ملک کی صاف و شفاف فضا کو آلودہ کرتے۔
دوسری طرف خود کو سیکولر کہنے والی پارٹیاں اور خود کو مسلمانوں کا مسیحا کہنے والے لیڈران کی زبانیں بھی اس معاملہ میں ثلج ہوگئیں، ابھی تک راہل گاندھی کے علاوہ کسی قدآور لیڈر یا کسی سیکولر پارٹی نے تری پورہ پر نہ ہی ٹویٹ کیا اور نہ ہی کسی نے مسلموں کی حمایت میں جا کر اس سے ملنے کی کوشیشیں کیں، جب کہ کسی دلت کی عصمت دری کی جاتی ہے، یا کوئی کسان مرجاتا ہے تو سیکولر لیڈران کی جماعت ان سے ملنے اور ان کے درد کو دور کرنے کے لیے قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتی ہیں، مسلموں کے پاس جانے اور ان سے ملنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے، یہ لوگ ڈرتے ہیں کہ اگر مسلموں کے پاس جائیں گے تو غیر مسلم ناراض ہوجائیں گےاور ووٹ کٹ جائے گا،تو میں ایسے لیڈران سے کہنا چاہوں گا کہ جب آپ کو اتنا ہی مسلموں سے نفرت ہے تو پھر کیوں آپ الیکشن کے وقت میں مسلم علاقوں میں ریلیاں کرتے ہیں؟ کیوں مسلمانوں کے دروازے پر جاکر ووٹ کی بھیک مانگتے ہیں؟ کیوں مسلموں کو جھوٹی تسلی دیتے ہیں کہ ہم آپ کے مخلص ہیں؟ ہم آپ کے خیر خواہ ہیں؟ہم آپ کی ساری پریشانیوں کو دور کریں گے؟ ہمارے مسلم بھائیوں کا بھی کیا کہنا یہ لوگ چند نوٹوں کے عوض میں اپنا ووٹ فروخت کر دیتے ہیں اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے لیڈران کو ووٹ دے کر انھیں فتح یاب کرتے ہیں اور پھر بعد میں کف افسوس ملتے ہیں، اس لیے میں اپنے بھائیوں سے گزارش کروں گا کہ آپ اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر استعمال کریں اور آپ اسے ووٹ دیں جو مشکل وقت میں آپ کا خیر خواہ ہو۔
تری پورہ جو جل رہا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ بنگلہ دیش میں غیر مسلموں پر ہوئے حملہ ہے، جس کے خلاف یہاں کی ہندو تنظیموں نے ریلیاں نکالی تھیں، اور اقلیتی مسلم علاقوں میں جا کر نعرے بازی کیں اور قرآن شریف کو جلا کر مسلموں کو جانی و مالی نقصان پہنچایا۔
سب سے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ابھی تک بی، جے،پی، کے کسی قد آور لیڈر نے نہ ہی اس فساد پر ٹویٹ کیا اور نہ ہی تری پورہ کے وزیر اعلیٰ بپلب کمار دیب نے فسادیوں کے خلاف کوئی کارروائی کی جس کی وجہ سے انتہا پسندوں کے حوصلے اوج ثریا پر ہے، جب کہ بنگلہ دیشی حکومت نے وہاں پر ہوئے حادثات پر فوراً قابو پالیا، ایک سو سو سے زیادہ گرفتاریاں ہوئیں اور مرکزی ملزم کو بھی بنگلہ دیش کی حکومت نے فوراً گرفتار کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی۔
میں ہندوستانی حکومت اور بالخصوص تری پورہ حکومت سے اپیل کروں گا کہ مجرمین کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کریں اور مسلموں کو تحفظ فراہم کر کے گنگا جمنی تہذیب کی مثال قائم کریں۔