از قلم: بنت مفتی عبدالمالک مصباحی، جمشیدپور
منقول ہے کہ کسی قاری صاحب پر تنگ دستی آ گئی حتیٰ کہ وہ تنگ دل (مایوس و پریشان) ہو گئے؛ اسی دوران انھوں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے : "اگر تم چاہو کہ ہم تمھیں ایک ہزار دینار دے دیں اور اس کے بدلے تمھیں سورہ انعام بھُلا دیں؛ منظور ہے؟ انھوں نے جواب دیا : نہیں!، پوچھا گیا سورہ ہود، انھوں نے کہا نہیں، سوال کیا گیا سورہ یوسف؟ جواب دیا نہیں، کئی سورتوں کے نام لیے گئے؛ پھر کہا تمھارے پاس ایک لاکھ دینار مالیت ہے اور تم شکوہ کرتے ہو!” (احیاء العلوم (مترجم)، حصہ چہارم، ص٢٨١، فاروقیہ بُک ڈپو)
یہ واقعہ موجودہ قرا، حفاظ اور علما کے لیے بھی کسی آئیڈیل سے کم نہیں ہے کہ۔۔۔
١: اسلام سے دوری نے اگر انجان عوام کو آپ کے علمی اقدار سے لا علم کر دیا ہے اور ان عظیم علوم کے حامل افراد کی قدر نہیں کرتے کیوں کہ انھیں معلوم نہیں! لیکن آپ تو جانتے ہیں نا کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے : "لیس منا من لم یتغن بالقرآن” یعنی _ جو شخص قرآن (کی دولت) سے اپنے آپ کو مالدار نہیں سمجھتا وہ ہم میں سے نہیں – (صحیح بخاری، ج٢،الحدیث ١١٢٣)
یعنی قرآن کے حاملین کو چاہیے کہ علوم قرآن کو عظیم جانیں!
وہ اپنے علم کو کسی بڑے خزانے سے کم نہ جانیں!
وہ حالات سے مایوس ہو کر خود کو کبھی کمتر نہ سمجھیں!
اور نہ ہی اپنے آپ کو ایسا ظاہر کریں کہ ہم نے حصول علم شریعت میں اپنا وقت لگا دیا اسی لیے ہم غربت و افلاس کے شکار ہیں؛ وغیرہ وغیرہ-
٢: جن کے پاس علوم شریعت ہو کبھی بھی تنگ دل نہیں ہوتے کیوں کہ انھوں نے قناعت، توکل، بھروسہ، امید اور رجاء کا درس پڑھا ہوتا ہے اب اگر وہی لوگ ان اسباق سے صرف نظر کریں تو دوسروں کا کیا ہوگا –
اسی لیے بڑی ناقابل یقین لگتی ہیں وہ خبریں جن میں یہ سننے کو ملتا ہے کہ کسی حافظ یا عالم نے (العیاذ باللہ) حالات سے تنگ آکر خود کوشی کر لی ہے – اللہ خیر کرے –
٣: قرآن اور علوم شریعت کبھی دنیوی مال و دولت کمانے کے لیے استعمال ہوا ہی نہیں ہے؛ لہٰذا آخرت کے لیے ان علوم کو ذخیرہ سمجھیں اور دنیا کے لیے ہنر سیکھیں!
پھر دیکھیں! علوم قرآن کے صدقے کس طرح راہیں کھلتی ہیں اور آسانیاں پیدا ہوتی ہیں-