سیاست و حالات حاضرہ

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں وزیر اعظم کا خطاب: جس نے نریندر مودی کو بی۔جے۔پی۔ رہنما کی سطح سے بلند کرکے عالمی مدبرین کی فہرست میں لا کھڑا کر دیا ہے

تحریر: (مفتی) منظور ضیائی:(اسلامی اسکالر، عالمی صوفی کارواں کے روح رواں) 

۲۶؍ دسمبر ۲۰۲۰ء سے قبل جو لوگ نریندر مودی کو صرف ہندوستان کا وزیر اعظم یا بی جے پی رہنما یا پھر ہندتوا وادی لیڈر سمجھتے تھے اُن میں سے بہت سے لوگوں نے یقینی طور پر اپنی رائے تبدیل کر لی ہوگی۔نریندر مودی کا مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے سوسالہ جشن سے خطاب اُن کے کئی دہائیوں پر محیط سیاسی کریئر کی بلا شبہ سب سے شاندار تقریر تھی اس ایک تقریر نے اُنہیں پنڈت جواہر لال نہرو ،سردار پٹیل ،لال بہادر شاستری ،اندرا گاندھی اور اٹل بہاری باجپائی کی صف میں لاکھڑا کر دیا ہے۔درد،اثر،تاثراور جذبات سے بھر پور اس تقریر کے ذریعے وزیر اعظم نریندر مودی نے نہ صرف اپنے ہدف کو پوری دنیا کے سامنے نکھار کر اور سجاسنوار کر پیش کیا بلکہ ہندو مسلم تعلقات کی داستان میں ایک نئے اور زرین باب کا اضافہ کیا ۔جس وقت یہ خبر آئی تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے صد سالہ جشن کا افتتاح کریں گے اُسی وقت بہت سے لوگوں نے دل کھول کر اس کا خیر مقدم کیااور وزیر اعظم نریندر مودی اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور دونوں کی تعریف کی۔مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے جس جذبہ کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کو صد سالہ جشن کے خطاب کرنے کے لئے مدعو کیا تھا اُسی جذبہ سے وزیر اعظم نے اس دعوت کو قبول کیا ۔وزیر اعظم نریندر مودی نے اس جشن سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ورچول خطاب کیا ۔کورونا کی وبا کی وجہ سے وزیر اعظم نریندر مودی بہ نفس نفیس تشریف نہیں لے جا سکے اور جشن کا حجم بھی مختصر کرنا پڑا ورنہ یہ واقعہ نہ صرف تاریخی بلکہ تاریخ ساز بن جاتا ۔

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ آزادی کے بعد سے اب تک فرقہ پرستوں اور نام نہاد سیکولرازم کے علم برداروں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکٹی رہی ہے ۔آنجہانی اندرا گاندھی نے اپنے پہلے دور اقتدار میں اس تاریخی یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کر دیا تھا اس کیلئے مسلم رہنماؤں نے مسلم عوام کے ساتھ مل کر ایک طویل اور صبر آزما تحریک چلائی ۔۱۹۸۰ سے پہلے آنجہانی اندرا گاندھی نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آگئیں تو وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا اقلیتی کردار بحال کر دینگی۔اندرا گاندھی دوبارہ پورے شان وشوکت سے اقتدار میں آئیں ۔انہوں نے اپنا وعدہ پورا ضرور کیا مگر آدھا ادھورا جس سے مسلم رہنما اور مسلم عوام قطعی مطمئن نہیں تھیں لیکن حالات کا رخ دیکھ کر خاموش تھے ،ان سب کے باوجود مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا اور اس کا شمار آج ملک کی بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے ۔مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اس یونیورسٹی میں کثیر تعداد میں غیر مسلم طلبا بھی زیر تعلیم ہیں ۔غیر مسلم اساتذہ کی بھی بہت بڑی تعداد یہاں موجود ہیں۔مسلم یونیورسٹی علی گڑھ حقیقی معنوں میں ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور ہندو مسلم اتحاد اور بھائی چارہ کا ایک قابل تقلید نمونہ ہے ۔یونیوسٹی کے بانی سر سید احمد خان نے کہا تھا کہ ہندوستان ایک خوبصورت دلہن کی مانند ہے ہندو اور مسلمان اس کی دو آنکھیں ہے ایک آنکھ کو بھی نقصان پہنچا تو دلہن کا سارا حسن ضائع ہو جائے گا ۔یونیورسٹی کے ذمہ داروں نے اپنے بانی کی ان خیالات کو ہمیشہ گرہ باندھ کر رکھا ۔اس کے اولین مہمانوں میں علاوہ دیگر لوگوں کے راجا مہیندر پرتاپ کا نام بھی بہت نمایاں ںے ۔

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں لڑائی جھگڑوں اور پر تشدد کی تحریک بھی ایک تاریخ رہی ہے کئی مرتبہ اندرونی و بیرونی سازشوں کے نتیجے میں یہاں تشدد پھوٹ پڑا ۔یونیورسٹی بند ہوئیں ،ہوسٹل خالی کرانے پڑے اور طلبا کا کافی تعلیمی نقصان ہوا لیکن گذشتہ کئی دہائیوں سے یونیورسٹی کی فضا بہ حیثیت مجموعی پرُ امن رہی ہے اور طلباو اساتذہ یکسوئی کے ساتھ تعلیم وتعلم میں مصروف ہیں۔فرقہ پرستوں نے کئی مرتبہ یہاں کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کی کبھی پاکستان کے نام پر ہنگامہ کھڑا کر دیا، کبھی محمد علی جناح کی تصویر کو لیکر فتنہ پردازی کی گئیں، کبھی راجا مہیندر پرتاپ سنگھ کے مجسمہ کے نام پر ہنگامہ کھڑا کیا ۔علی گڑھ شہر کی ہندتوا وادی تنظیموں نے کئی مرتبہ یونیورسٹی میں مداخلت کی کوشش کی ۔سی اے اے اور این سی آر کے خلاف چلائی گئی تحریک کے دوران یونیورسٹی کے طلبا بھی زیادتیوں کا نشانہ بنے اس ماحول میں وزیر اعظم نریندر مودی کا خطاب گھٹن بھری فضا میں تازہ ہوا کے ایک خوشگوار جھونکے کی طرح ہے اور مایوسی کے گھنا گھور اندھیرے میں اُمید کی ایک کرن کی ہے ۔یقینی طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کے اس اقدام کو کچھ تنظیموں نے قطعی پسند نہیں کیا ہوگا اور اُن کا وزیر اعظم نریندر مودی پر دباؤ بھی رہا ہوگا لیکن اس کے باوجود نریندر مودی نے اس تقریب سے خطاب کیا ۔مضمون کے ابتدا میں ہم نے لکھا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی ایک مدبر رہنما کے طور پر اُبھرے ہیں جو اپنے کور گروپ کے دباؤ کو بھی نظر انداز کر سکتا ہے۔ماضی میں یہ مقام آنجہانی اٹل بہاری باچپائی کو حاصل ہو چکا ہے ان رہنماؤں نے اپنے دور اقتدار میں اور اقتدار سے باہر رہ کر بھی کئی مرتبہ اعلیٰ ترین مقاصد کے اُصول کیلئے بڑی تنظیموں کے دباؤ کو نظر انداز کر دیا تھاآج وہ بلندی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی حاصل کر لی ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی کا خطاب فن خطابت کا شاہکار تھا انہوں نے دو ٹوک انداز میں اعلان کیا کہ مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی تفریق نہیں کی جائیں گی ۔انہوں مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان کے سائنٹیفک اپروچ ،مسلم علی گڑھ یونیورسٹی کے علمی اور تعلیمی کارناموں کا اعتراف کیا ۔یہاں کہ فارغ ہونے والے طلبا واساتذہ کی خدمات کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس بات کو بھی سراہا کہ یہاں اُردو ،عربی اور فارسی اور مختلف اسلامی علوم وفنون کی ترویج واشاعت کے ذریعے ہندوستان اور اسلامی ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں نہایت اہم رول ادا کیا ہے۔یہاں کے طلبا نے پوری دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کیا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی نے کورونا کی وبا کے دوران علی گڑھ یونیورسٹی کے میڈیکل کالج کے ڈاکٹروں اور عملہ کے لوگوں کے ذریعے کورونا ویکسین کی بلا تفریق مدد کے جذبے کو بھی کھل کر سراہا ۔وزیر اعظم کی تقریر میں کئی ایسی باتیں تھیں جن کا تعلق براہ راست عوام سے تھا جہاں تک مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا معاملہ ہے وہ یونیورسٹی کی پوری تاریخ کا مطالعہ کرکے یہاں کے طلبا واساتذہ سے خطاب کر رہے تھے اُن کی باتیں دل کی گہرائی سے نکلی اور دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اُترتیب چلی گئیں ، ہر طرف سے تحسین و آفرین کی صدائیں بلند ہوئیں ایک چھوٹے سے طبقے کو چھوڑ کر سب نے اُن کو سراہا بہرحال! جمہوریت ہے اور سب کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہیں۔

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کیلئے ملک کی سیاسی شخصیات کا دورہ کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔ملک کے پہلے وزیر اعظم آنجہانی جواہر لال نہرو یہاں کے طلبا ،اساتذہ اور دانشوروں میں بے حد مقبول اور محبوب رہے ہیں انہوں نے کئی مرتبہ اس یونیورسٹی کا دورہ کیا ۱۹۶۴ آنجہانی لال بہادر شاستری یورنیورسٹی کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد میں شریک ہوئے تھے اب نرنیدر مودی نے ورچوالی یونیورسٹی سے خطاب کیا ہے اور اس خطاب سے جو پیغام جاتا ہے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہندو مسلم اتحاد کی جو فضا بنی ہے اُسے نہ صرف مسلم یونیورسٹی علی گڑھ بلکہ ملک کی تاریخ کا ایک نیا سنگ میل کہا جا سکتا ہے ۔آنجہانی سردار پٹیل کو ہندوستان کا بسمارک کہا جاتا ہیں انہوں نے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو جوڑ کر ملک کو متحد کیا تھا اگر چھوٹے سردار مختلف کمیونیٹیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں کامیاب ہوگئے تو اُن کا یہ کارنامہ تاریخ میں زرین حرفوں سے لکھا جائے گا ۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے