از قلم : مجاہد عالم ندوی
استاد : ئائمس انٹر نیشنل اسکول محمد پور شاہ گنج پٹنہ
اس ملک و قوم کی لاشعوری اور علماء کرام کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک اور ان کے مقام بلند کی نا قدری دیکھ کر افسوس ہوا۔
علماء کرام کو انبیاء کرام کا وارث کہا گیا ہے ، لیکن آج انہی علماء اور حفاظ قرآن و مساجد کے اماموں کی زندگی لاک ڈاؤن کی وجہ سے کسمپرسی میں گزر رہی ہے ، معاشی تنگی نے ان کا جینا دو بھر کر دیا ہے ، روز مرہ کی ضروریات ہی پوری نہیں ہو پا رہی ہیں تو بچوں کے اسکولوں کی فیس، والدین اور بیوی بچوں کی بیماریوں کا خرچ کہاں سے برداشت کریں گے؟ امامت کے فرائض انجام دینے پر اتنا کم معاوضہ دیا جاتا ہے کہ جس میں ان تمام ضروریات کا پورا ہونا مشکل ہوتا ہے، آج مسلمانوں میں فضول خرچیاں عروج پر ہیں،
بہت سی مساجد میں فنڈ موجود ہوتا ہے لیکن اسے ائمہ و موذنین کی تنخواہوں میں استعمال نہیں کیا جاتا ہے ، مسجدوں کی تعمیر اور رنگ و روغن اور مسجدوں کے طہارت خانوں کو ٹائلس سے سجایا جاتا ہے تو اس کے لیے کروڑوں اور لاکھوں خرچ کیا جاتا ہے ،
لیکن امام و موذنین کو تنخواہیں دینے میں بخالت کی انتہا ہو جاتی ہے ، کچھ رعونت پسند تو یوں ستم بالا ستم ڈھاتے ہیں کہ اپنی محرومی پر نظر نہیں جاتی اور امام و مؤذن کا تعارف یوں کراتے ہیں ” بے چارے یہی ہمارے امام ہیں” شاید ان رعونت پسند اور بے توفیق لوگوں سے جب روز قیامت اللہ تعالیٰ حساب لیں گے تو جواب دیتے نہ بن پڑےگا ، وہاں اسی امام و مؤذن اور حافظ قرآن کی عزت و تکریم دیکھ کر شاید حسرت سے یہ لوگ سوچیں گے ، کاش اپنے بچے کو بھی اسی کام میں لگایا ہوتا ، کاش ہم خود کسی حامل قرآن کی خدمت میں رہے ہوتے ۔
ذمہ داران مساجد ائمہ و موذنین کے مقام ومرتبہ سے واقف ہی نہیں ، یاد رکھا جائے کہ دنیا میں کوئی معزز ترین شخص اہل دنیا کے نزدیک تو محترم و معزز ہو سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک حافظ قرآن کا جو مقام ومرتبہ ہے اسے دیکھ کر یہ اہل ثروت اور دنیا پرست روز قیامت ہاتھ ملیں گے اور سوچیں گے کاش ان کے گھر میں بھی کوئی حافظ قرآن ہوتا ، کاش انہوں نے کسی حامل قرآن کی قدر کی ہوتی ۔
یہ سب حقیقت ہے کوئ فسانہ نہیں، آج مہنگائی عروج پر ہے ، ضروریات زندگی کا پورا ہونا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے، امام مسجد پر امامت کی ذمّہ داری ہوتی ہے اس وجہ سے وہ دیگر کام کاج کرنے سے قاصر ہوتا ہے ، لیکن اسے اس کی خدمات کا پورا معاوضہ نہیں دیا جاتا ہے ، انگریزی اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دلانے والے لاکھوں روپے بچوں کی فیس ادا کرتے ہیں، لیکن مسجد کا امام اور مدرسہ کا معلم جو تمہارے بچوں کی دونوں جہانوں کی کامیابی کیلئے تعلیم دیتا ہے انہیں بہت ہی کم معاوضہ دیا جاتا ہے ،
بعض مساجد کمیٹی کے ذمّہ داران چار چار مہینے تک امام کی تنخواہ نہیں دیتے ہیں ، غور کرنا چاہیے کہ جس کی تنخواہ ہی معمولی ہو اور جس سے بمشکل تمام مہینے بھر کا گزارا ہوتا ہو وہ چار مہینے کیا کھا کر اور کھلا کر اپنے آپ کو اور اپنی بیوی بچوں کو زندہ رکھتا ہوگا ؟ مزدوری کرنے والے کو جب ایک دو دن مزدوری نہیں ملتی ہے تو اس کے گھر میں فاقے کی نوبت آجاتی ہے ، تو امام مسجد کو چار مہینے تنخواہ سے محروم رکھنے پر اس کا گزارا کیسا ہوتا ہوگا ؟ وہ بھی تو آخر تمہاری طرح انسان ہے، جیسی تمہارے ضروریات ہیں ویسی ہی اس کی بھی ضروریات ہیں ، جیسی تمہاری خوشیاں ہیں ویسی ہی اس کی بھی خوشیاں ہیں ۔
ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ کوئ امام اگر موٹر سائیکل پر جاتا ہوا دیکھائ دیتا ہے تو لوگوں کو بڑا تعجب ہوتا ہے ، اگرکوئ امام ہوٹل میں کھاتا ہوا دیکھائ دیتا ہے تو حیرت میں پڑ جاتے ہیں، اور پوچھ ڈالتے ہیں امام صاحب آپ یہاں کیسے ؟
مجھے ائمہ و موذنین سے بھی گزارش کرنی ہے کہ وہ اپنے مقام ومرتبہ کو سمجھیں اور اپنے آپ کو پہچانیں ، لیکن اس سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام اور ذمّہ داران مساجد و مدارس اپنا محاسبہ کریں، مولویوں کو اسی دور اور اسی معاشرے میں جینے والا ایک ایسا انسان سمجھیں جس کو ضروری غذا اور ضروری دوا علاج کی اور واجبی ضروریات زندگی کی ہمہ وقت ضرورت ہے ، کوئی کسی قدر متقی ہو جائے ، زہد و ورع کی انتہا کو پہنچ جائے، مگر اس کے اور اس کے اہل خانہ کی ضروریات اور واجبی تقاضے تو بہر حال باقی رہتے ہیں ، تعمیر و تزئین سے بہتر ہے کہ ان بندگان خدا کی ضرورتیں پوری ہو جائیں، جو بہر حال ان کروڑوں انسانوں سے بہتر ہیں، جن کی زندگی بارگاہ خداوندی میں سجدہ کرنے سے محروم اور اغیار کے در پر سجدہ ریز رہتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ذمہ داران مساجد و مدارس کی اصلاح فرمائے اور اخلاص نیت کے ساتھ صحیح طرز پر مساجد ومدارس کا نظام سنبھالنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین یارب العالمین