ازقلم: عبدالکلیم فیضی
متعلم: دارالعلوم اہل سنت فیض الرسول براوں شریف سدھارتھ نگر یوپی
جب سے دنیا قائم ہوئی اس وقت سےلےکرآج تک اس دنیامیں بہت سے لوگ آئے اورچلےگئے ان میں سے کچھ توایسےہیں کہ ان کے جانے کے بعد دنیا انہیں بھول چکی ہے اور کچھ ایسےہیں کہ جب تک وہ اس دنیا میں رہے لوگ انہیں یاد کرتے رہے اور دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی لوگ ان کی یاد مناتے ہیں یہ مقربان بارگاہ الہی اور اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں انہیں چنندہ بندوں میں سے ایک ذات سرکار شعیب الاولیا علیہ الرحمۃ والرضوان کے مرشد اجازت قطب الاقطاب سلطان التارکین سیدنا شاہ عبداللطیف ستھنوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی ہے جو سلسلہ عالیہ چشتیہ میں اپنے وقت کے عظیم ترین اور با اثر اور صاحب کرامت بزرگ تھے آپ علیہ الرحمۃ والرضوان خدا رسیدہ ولی تھے۔
آپ علیہ الرحمۃ والرضوان نے بادشاہت کو ترک کر کے سلوک وطریقت کے راستے کو اپنایا یہ ایسا مشکل راستہ ہے کہ اس پرچلنے کے لیے نفس کو بھوکا پیاسا اور پیٹھ کو بستر سے جدا رکھنا پڑتا ہے اس پر چلنا آسان نہیں لیکن آپ علیہ الرحمۃ والرضوان نے سب کچھ برداشت کرکے اس راستے کو طے کیا۔
آپ علیہ الرحمۃ والرضوان شریعت مطہرہ پر بہت ہی مضبوطی سے قائم تھے آپ بہت بڑے متصلب فی الدین تھے آپ کا تقوی آپ کی پرہیزگاری اوراحیا ملت بادشاہت کو ترک کر کے سلوک وطریقت کے راستے کو اپنانا یہ ایسے اوصاف حمیدہ ہیں جو آپ کے متصلب فی الدین ہونے پر واضح دلیل ہیں۔
آپ علیہ الرحمۃ والرضوان متبع سنت تھے یہ وصف آپ علیہ الرحمۃ والرضوان میں بدرجہ اتم موجود تھااسی وجہ سے آپ علیہ الرحمۃ والرضوان اپنے معاصر بزرگان دین میں امتیازی شان کے حامل تھےغالبا یہی وجہ تھی کہ آپ علیہ الرحمۃ والرضوان سے (سفر بریلی شریف کے موقع پر)اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان بوقت ملاقات نہایت ہی اعزاز واکرام سے پیش آتے اور پہلو بہ پہلو بیٹھ کر گھنٹوں شریعت وطریقت کے رموز و اسرار پر گفتگو فرماتے تھے
آپ علیہ الرحمۃ والرضوان کے متصلب فی الدین ہونے پر ایک روشن دلیل یہ بھی ہے کہ ایک سو تیس سال کی عمر آپ کی ہو چکی اور مرض الموت میں مبتلا ہیں ضعف و نقاہت اس درجہ کہ دوسرے کے سہارے پر بھی دو قدم چلنے کی طاقت نہ تھی مگر اس حالت میں بھی نماز باجماعت کے اس قدر پا بند تھے کہ اس عمر میں بھی تکبیر اولی فوت نہ ہوئی