مغربی افکار یا شرکیہ آثار کا مسلم معاشرے میں جھلکنا فکری موت کی علامت ہے۔
تحریر: غلام مصطفیٰ رضوی
[نوری مشن مالیگاؤں]
تہذیب، تمدن، ثقافت کے نشانات و آثار فکر و نظر کی تعمیر و تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اِسی لیے مسلم سلاطین نے اپنے اپنے عہد میں تعمیرات، آثار و عمارات اور یادگاروں کے قیام میں ڈیزائن، نقشہ اور ظاہر و باطن میں اسلامی طرز و انداز کا بھرپور پاس و لحاظ رکھا۔ جتنے مسلم سلاطینِ ہند گزرے ان کی اکثر تعمیرات اسلامی فنِ تعمیر کا شاہکار ہیں۔ ہند کے چپے چپے پر ہمارے آثار و شواہد اپنی کرنیں بکھیر رہے ہیں اور کیفیت یہ ہے کہ؎
گلشنِ ہند ہے شاداب کلیجے ٹھنڈے
واہ! اے ابرِ کرم زور برسنا تیرا
[علامہ حسنؔ رضا ]
چند مثالیں:
عرفِ عام میں بعض اصطلاحات، نعرے، سلوگن، مقامات اور علاقے ایسے انتسابات رکھتے ہیں؛ جن سے ہند پر اسلامی آثار کی جھلک واضح ہوتی ہے۔ مثلاً:
[۱] عمومی طور پر خواجہ کا ہندستان نعرہ مشہور ہے۔ یا خواجۂ ہند کہا جاتا ہے، جس سے ہند پر خواجہ غریب نواز کے احسان یاد آتے ہیں۔ اسلامی روحانی آثار اُجاگر ہوتے ہیں۔ ہند سے اولیاے کرام کے پختہ رشتہ و تعلق کا اظہار ہوتا ہے-
[۲] تاج محل، قطب مینار، لال قلعہ،چار مینار، شاہانِ مغلیہ کے مقبرے، بی بی کا مقبرہ، مسلم بادشاہوں کے تعمیر کردہ قلعے، محلات، عوامی عمارتیں وغیر وغیرہ فنِ تعمیر کے وہ نمونے ہیں جن میں اسلامی ثقافت مستور و موجودہے۔
[۳] شہروں کے نام میں بھی یہ جھلک صاف دکھائی پڑتی ہے، جیسے احمد آباد، احمد نگر، محمد آباد، الہ آباد، فیض آباد، حیدرآباد، نظام آباد، اورنگ آباد، رحمت آباد، اکبر آباد، اکبر پور، خلدآباد، برہان پور، زین آباد جیسے سیکڑوں نام ہمارے تاریخی تسلسل اور تاباں ماضی کا نقش جمیل ہیں۔ جن کی پشت پر شوکتِ اسلامی کے پھریرے لہراتے ہیں۔ یوں ہی بعض وہ نام جو بزرگوں سے منتسب واقعات/مشاہدات کے ضمن میں مروج ہوئے، جیسے کچھوچھہ مقدسہ، مارہرہ مطہرہ، گلبرگہ وغیرہ۔ ایسے سیکڑوں نام مناسبت و معنویت رکھتے ہیں۔ تمثیل طوالت کا باعث ہوگی۔
[۴] مساجد تو یوں بھی اسلامی تمدن کا نشانِ امتیاز ہیں۔ جن کی تعمیر میں جہاں اسلامی فن تعمیر کی جھلک ہوتی ہے؛ وہیں ملکی ثقافت، جغرافیائی کیفیت کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے۔ قوموں کے عہد زریں کی ہزاروں داستانیں طرزِ تعمیر میں مستور ہوتی ہیں۔ مینار و گنبد، برج و محراب، صحن و بر آمدے، چھجے، وضو خانے ، اذان خانے، دالان و نقوش سبھی کچھ اپنی شان، ادا، شوکت، فکر و آہنگ کا نقطۂ امتیاز ہوتے ہیں۔ جن کی پشت پر کئی قافلے رواں دواں محسوس ہوتے ہیں۔ ہنگامِ جہاں میں مشغول انسان جب ان مساجد کی زیارت کرتا ہے؛ جو نقش ماضی ہوتی ہیں تو تاریخی تسلسل کے کئی نظارے مشاہدہ ہوتے ہیں۔
ثقافتی رُخ:
اقبالؔ نے کہا تھا کہ؎
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ہم مسلمان ہیں۔ اہلِ حق ہیں۔ موحد ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے ہمارا روح کا رشتہ ہے۔ ہمارا لباس، ہمارا رکھ رکھاؤ، چال چلن، گفتگو سب اسلامی ہونے چاہئیں۔ ہم کوئی عمارت، یادگار، گھر، کارخانہ بنوائیں سبھی کے نقش و نگار مسلم تہذیب کے عکاس ہونے چاہئیں، اغیار، مغربی افکار یا شرکیہ آثار کا مسلم معاشرے میں جھلکنا فکری موت کی علامت ہے۔ بلکہ بطورِ وضع بھی ہمارے کام شرک یا مغربی تمدن کا ترجمان نہیں ہونا چاہیے۔ علامات ذہن و فکر کو متاثر کرتی ہیں۔ ہم اغیار کی علامات اختیار کریں گے؛ تو ان سے مرعوبیت لازماً آئے گی۔ مایوس فکروں سے مرعوب نسلیں شہ پاتی ہیں۔
کبھی اسلامی آثار برباد کر کے؛ تبدیل شدہ صورت باقی رکھ کر زوال فکروں کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ جیسے اندلس میں مسلمانوں کے آثار مٹا دینے کے بعد مسجد قرطبہ کو کلیسا میں بدل دیا گیا- عمارت باقی رکھی گئی؛ لیکن وہ زوال کا نمونہ بنا دی گئی۔ افسوس! مسجد قرطبہ عزم و حوصلہ کی شکست کی علامت بن کر رہ گئی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ اپنے تمام کام اپنے تہذیبی پس منظر میں انجام دیں۔ تا کہ حوصلوں کو سہارا اور قومی وقار کو آسرا ملے۔ داغِ یتیمی دُھل جائیں۔ پاکیزہ فضا میسر آئے۔
حملوں کا رُخ:
ایک صدی قبل اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی(وصال۱۹۲۱ء/۱٣٤۰ھ) نے انگریز کے ساتھ ساتھ مشرکین کی سازشوں سے بھی باخبر کیا تھا؛ آپ نے ایسے اتحاد کی مخالفت کی تھی جس سے مذہبی رُوح مجروح ہو اور شرکیہ رسم و رواج کو تقویت ملے، آپ نے یہ ذہن دیا تھا کہ نہ انگریز ہمارے خیر خواہ ہیں؛ نہ ہی مشرکین۔ لیکن مشرکین سے اتحاد کی آندھی میں اچھے اچھے تنکوں کی طرح اُڑ گئے۔ وقت اور حالات نے اعلیٰ حضرت کی دور بینی پر مہر لگادی۔ آزادی کی صبح طلوع ہوئی؛ لیکن مسلم دُشمنی کی نئی شام آگئی۔ تہذیبی و ثقافتی آثار مٹائے جانے لگے۔ دیومالائی فکر زبردستی نافذ کی جانے لگی۔مسلمانوں کے لہو سے ہولیاں کھیلی گئیں۔ کئی مساجد پر حملے کیے گئے۔ تنازعات برپا کیے گئے۔ مسلمانوں کے تہذیبی آثار مٹانے کی کوشش ہوئی، حتیٰ کہ زبان پر بھی حملہ کیا گیا۔ رہن سہن، شعار تک کو نشانہ بنایا گیا۔ داڑھیوں پر تشدد اختیار کیا گیا۔ لبادے کو نشانہ بنایا گیا۔
حال کا مشاہدہ کیجیے۔ کئی شہروں، اسٹیشنوں کے نام تعصب میں بدل دیے گئے۔ وجہ یہی تھی کہ ناموں کو مسلمانوں سے مناسبت تھی، شوکت اسلامی کا ان سے اظہار ہوتا تھا۔ پھرنصابی عمل میں بھی اسلام سے متعلق غلط فہمی شامل کی جا رہی ہے؛ تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے۔ شرک و کفر سے مملو اسباق نصاب کا حصہ بنائے جا رہے ہیں، جن کا توڑ صرف یہی ہے کہ بچوں کی اسلامی تربیت کی جائے۔انھیں رسول اللہ ﷺ کی محبت سکھائی جائے۔ ان کے شعور پر اسلامی تعلیمات کے نقوش بٹھائے جائیں تا کہ فکر مغرب و شرک متاثر نہ کر سکیں؎
تازہ مِرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا
عشق تمام مصطفیٰ، عقلِ تمام بولہب
صاحبانِ اثر کو چاہیے کہ مسلم علاقوں کے نام اسلاف کے نام پر رکھیں، چوک چوراہوں کو بزرگوں اور اسلامی شخصیات کے نام منسوب کریں۔ شہروں گاؤں اور دیہاتوں میں جہاں ذی اثر مسلمان بستے ہوں وہ مطالبہ کر کے مسلم ثقافت کی آئینہ دار یادگاریں تعمیر کروائیں، اپنی تمام سرگرمیوں سے مغربیت کا بت نکال باہر کریں۔ اسلامی تہذیب عام کریں۔ اسی پر فخر کریں۔مایوس و اداس نسلیں بوجھ ہوتی ہیں، ان شاء اللہ عزم و یقیں کے چراغ فصیل مومن پر روشن ہوں گے۔اور بتوسلِ رسول اللہﷺ یاسیت کی تہیں چاک ہوں گی۔ امیدوں کی یادگار صبح اسلامی آثار کی شوکت کے دامن سے طلوع ہو گی۔