تحریر: قاضی مشتاق احمد رضوی نظامی
ہرپنہلی ، ضلع بلہاری ، کرناٹک ، انڈیا
مفتیانِ کرام کی توجہ ضروری ہے
اس مسٸلے کا حل آخر کیسے ممکن ہو؟
اس مسٸلہ کو لیکر متعدد علمإ کی الگ الگ راٸے سامنے آیٸ ہیں
علمإ کا ایک طبقہ اس ویکسن کے استعمال کو لیکر جواز کا قاٸل ہے تو دوسرا طبقہ عدم جوام کا
تیسرا ایک اور طبقہ ہے وہ نہ جواز کا قاٸل ہے نہ عدم جواز کا
جو جواز کے قاٸل ہیں انکا کہنا ہے گرچہ اس ویکسين میں خنجیر کی چربی ، گوشت ، یا خون شامل ہونے کے صرف شبہات ہیں اس لۓ اس کے استعمال کو جواز کا حکم دینا ثابت ہوتا ہے نیز اگرچہ اس میں ان حرام اشیإ کے شامل ہونے کی بات قطعی طور پر بھی معلوم ہو تب بھی مسلمانوں کو اپنی جان بچانے کے لۓ اس ویکسین کا استعمال کرنا جاٸز ہوگا
جو طبقہ اس ویکسین کے استعمال پر عدم جواز کا قاٸل ہے ان کا کہنا یہ ہے
چونکہ اللہ تعالی نے قرآن مقدس کےذریعے ہی یہ حکم دے دیا ہے کہ مسلمانوں کے لیۓ خنجیر کا گوشت خون کا کھانا حرام ہے
اور اس ویکسین میں خنجیر کے کسی بھی اشیإ خون ، گوشت ، چربی ، وغیرہ کا شامل ہونا یقینی ہے تو وہ ہر صورت نا جاٸز و حرام ہوگا
اور جو تیسرا طبقہ ہے ان کا یہ ماننا ہے کہ کسی بھی حرام اشیإ کی ہیت جب بدل جاتی ہے تو اس کا شرعی حکم بھی بدل جاتا ہے
جیسے گوبر حرام مگر اسکی اوپلی جو جلانے کے بعد راکھ بن جاتی ہے تو وہ راکھ پاک ہو جاتی ہے اسی طرح جو شراب سرکہ میں تبدیل ہو جاۓ تو اس کا استعمال جاٸز
اور راقم کا ماننا یہ ہے اس ویکسین کے حوالے سے
اس طرح کی قیاس آراییاں کرنے کے بجاۓ
جو کمپنیاں کرونا کےخاتمے کے لۓ ویکسين تیار کر رہی ہیں یا تیار کر چکی ہیں ان کمپنیوں سے رابطہ کیا جاۓ اور انہیں سے معلوم کر لیا جاۓ کہ آیا یہ جو ویکسین تیار کی گٸ ہیں یا کی جارہی ہیں اس میں خنجیر کے کسی بھی شیٸ کا استعمال کیا گیا ہے ؟ یا نہیں ؟
اور یہ بھی یاد رہے ہم اور آپ یہ بات کسی بھی دوا تیار کرنے والی کمپنیوں سے پوچھیں یا نہ پوچھیں ویکسین یا کسی بھی طرح کی دوا تیار کرنے والی کمپنیاں خود یہ صاف صاف واضح کر ہی دیا کرتی ہیں کہ کس دوا میں کس چیز کا کتنی مقدار میں استعمال کرکے یہ دوا تیار کی گٸی ہے
اور اس کے علاوہ یہ بھی سننے میں رہا ہے کہ مسلم ممالک کی کٸی کمپنیاں کرونا ویکسین کو کسی حرام اشیإ کے استعمال کۓ بغیر بھی تیار کرنے کا دعوی کر رہی ہیں
اور راقم کا یہ سوال بلکہ ہر ایک ذی شعور کا یہ سوال ہونا چاہیۓ
کرونا کووڈ19 سے مرنے والوں کی اور اس مہاماری بیماری سے شفایاب ہونے والوں کی تعداد اگر ڈبلیو ،ہیچ ، او ، کی رپورٹ دیکھیں تو مرنے والوں سے زیادہ شفایاب ہونے والوں کی تعداد 80 سے 90 فیصد ہے
تو اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کرونا بیماری سے جو لوگ شفایاب ہوۓ ہیں یا جن ڈاکٹروں نے ان کا علاج کیا ہے وہ کس دواٸی کا استعمال کرکے ان کو شفإ دلاٸی ہے
اور جن لوگوں کو کووڈ 19 ٹیسٹ کیا گیا اور ان لوگوں کی رپورٹ ” پاسیٹو “ آٸی تھی تو فوراً ان کو انکے ہی گھروں میں کوارینٹین کیا گیا تھا اور اب بھی کیا جارہا ہے اور وہ لوگ اپنے ہی گھروں میں رہکر شفایاب ہوۓ تو وہ لوگ کونسی دوا کھاکر شفایاب ہوۓ ؟
اور جب کہ یہ کہا جارہا ہے اس کرونا وبا کی دوا اب تلک کسی بھی ملک کی مڈیکل لاٸبریٹریوں نے بناٸی ہی نہیں تو آخر یہ ”کرونا پاسیٹو“ مریض کیسے شفایاب ہوٸے ؟
اور یہ بھی چند احباب کی راۓ ہے کہ یہ ویکسین بنانا اور اس کا استعمال ساری دنیإ کے انسانوں پر لازم قرار دینا یہ کہیں کسی طرح کی سازش تو نہیں رچی جارہی ہے تاکہ تمام کاٸینات کے انسانوں پر ایک ہی طرح کی حکومت قاٸم ہو جاۓ
اس طرح کے سوالات ہر ایک انسان میں فطری طور پر پیدا ہوتے ہیں اور ہورہے ہیں
اسی لۓ ہمارے مفتیانِ کرام و محققانِ عظام کی بارگاہ میں حقیر کی بس اتنی سی التجا ہے کہ مذکورہ باتوں پر خوب غور وخوص کر کے ہی اپنے اپنے دارالافتإ و دارالقضاٶں سے اس کرونا ویکسین کے حوالے سے حکم نامے جاری فرماٸیں تا کہ عوام الناس کسی طرح کے مغالطے میں پڑ کر کہیں دینی اداروں پر بھروسہ کرنا ہی چھوڑ دیں کیونکہ جان سب کو پیاری ہے
یہ جان جانے یا جان بچانے کا معاملہ ہے
کوٸی معمولی سر درد ، سردی ، بخار ، کھانسی ، کو دور کرنے کا مسٸلہ نہیں ہے کہ آپ کی بتاٸی دوا کھالی بیماری میں افاقہ نہیں ہوا
تو دوسرے کے بتاٸی ہوٸی دوا کھالیا تو افاقہ ہوگیا
یہ ویکسین کا مسٸلہ ایک انٹر نیشنل مسٸلہ ہے اور بہت ہی بڑا حساس مسٸلہ ہے اس پر بہت ہی زیادہ غور و فکر کرنے کے ساتھ ساتھ بہت ہی محطات طریقے سے اس مسٸلے کو سلجھانے کی ضرورت ہے
ورنہ ہمارے اسلامی مذہبی ادارے اور ان اداروں میں بیٹھے مفتیوں اور ذمہ داروں کو کہیں لینے کے دینے نہ پڑجاٸیں
اور جو تشخص ہمارے اسلامی اداروں کا اغیار کی نظروں میں ملحوظ ہے کہیں اس طرح کے بغیر سمجھے بوجھے بغیر تحقیق کے دیۓ گیۓ فیصلوں سے ہمارے اسلامی ادارے اپنا وقار نہ کھو بیٹھیں
اور ذرا سا آگے بڑھ کر میں یہ بھی کہنے کی جسارت کرونگا کہ یہ مسٸلہ کوٸی مسلک مذہب یا مشرب کے داخلی اختلافات کا مسٸلہ نہیں ہے
یا عوام الناس جہلا کے گھریلو آپسی جھگڑوں کا مسٸلہ نہیں ہے جو کہ امن و اماں کے خاطر آپس میں صلح کرانے کے لٸے جو چاہے جس کی طرف چاہے ہم بنا تحقیق کے فیصلہ سنادیں
جبکہ ان فیصلوں میں بھی ہم بے اعتناٸی نہیں برت سکتے ان فیصلوں میں بھی ہم وہی راستہ اپناتے ہیں جو از روۓ شرع درست ہو
لِہذا
فقیر راقم کی علماۓ اہلسنت و مفتیانِ دین و ملت سے گزارش ہے
اس ویکسین کے مسٸلے میں اپنے اپنے طور پر دۓ گۓ جواز و عدم جواز کے فیصلوں پر نظرِثانی فرمالیں
اور اس ویکسین کے مسٸلے پر ملکی سطح کی ایک خاص میٹنگ علماۓاہلسنت و مفتیانِ کرام پر مشتمل منعقد فرماٸیں
اور اس مجلس میں بحث و مباحثے کے بعد متفقہ راۓ سے از روۓ شرع ایک ہی طرح کا فیصلہ صادر فرماٸیں
تاکہ عوام الناس کسی طرح کے مغالطے میں نہ پڑجاۓ
اور وقت پڑنے پر اس فیصلے کے منکروں اور مخالفین سے ایک جٹ ہوکر لڑائی لڑی جا سکے
کیونکہ اس وقت کی مرکزی حکومت اندرونی طور پر اور کٸی ایک صوباٸی حکومتیں جو خاص کر مسلم اداروں کی دشمن بنی ہوٸی ہیں
کہیں ان فصلوں کو لیکر ہمارے ان اسلامی ادروں کے ساتھ کوٸی ایسی حرکت نہ کر بیٹھیں کی ہم پھر سے اپنے اداروں کے تشخص کو برقرار رکھنے کے لٸے کوٸی بہت لمبی قانونی لڑاٸی لڑنے کی ہمیں ضرورت نہ پڑجاۓ۔