نعت رسول

ذکر محبوبﷺ کی موجیں

تحریر: غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن مالیگاؤں

نعتیہ بزمِ سخن عرب نخلستان میں سجی… وہاں سے سفر کر کے فارس پہنچی… جہاں آتش کدۂ باطل سرد ہوا اور ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدّت نے کثافتوں کو دور کر دیا… یوں فارسی زبان نکھر گئی..لبوں پر "بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر” کے نغمے سج گئے… دل کا عالَم بدل گیا… محبتوں کی صبح طلوع ہو گئی… روحانیت کے مسافر منزلِ مقصود کو پہنچ گئے… نغمۂ پُر سوز کانوں میں رَس گھولنے لگے… وارفتگیِ شوق میں آپ بھی ان اشعار کو گنگنائیں۔۔۔۔

یا شافع روزِ جزا پُرساں توئی پُرساں توئی
رشکِ ملک نورِ خدا انساں توئی انساں توئی

روشن ز رویت دو جہاں عکسِ رُخت خورشیدِ جاں
اے نورِ ذات کبریا رخشاں توئی رخشاں توئی

یا مصطفیٰ یا مجتبیٰ اِرحم لنا اِرحم لنا
دست ہمہ بیچارہ را داماں توئی داماں توئی

من عاصیم من عاجزم من بیکسم از خود مراں
یا شافع روزِ جزا پُرساں توئی پُرساں توئی

ضجامی رود از جانِ خود جلوہ نما بہرِ خدا
جان و دلم ہر دو فدا جاناں توئی جاناں توئی
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (از: علامہ جامی)

جب ذکرِ محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی موجیں ساحلِ اردو کو چھونے لگیں تو منظر بدل گیا… جذبات کے دھارے اردو کے گلشن میں بہہ نکلے… کیاریاں سج گئیں… بہاروں کے دن پھرے… سودا کے قصائد اور محسن و امیر کے بہاریہ اشعار نے بزم میں کئی رنگ برنگ پھول کھلائے… لیکن شرعی اغلاط سے منزا اشعار کی محتاط روش امام احمد رضا بریلوی نے قائم کی… اردو کی نعتیہ روایت کو امام احمد رضا بریلوی نے درجۂ کمال تک پہنچایا… بخشش کے باغات ہرے بھرے ہو گئے… "حدائق بخشش” کی خوشبو پھیل گئی… عنادل کا ہجوم اُمڈ پڑا…بلبلیں چہکنے لگیں… ڈالیاں جھومنے لگیں… پھوہار پڑنے لگیں… وادیِ عشق جَل تھل ہو گئی… ایمان کی بزم گُلِ ہزارہ کی مہک سے معطر ہو گئی۔۔۔

ہے ﺑﻠﺒﻞِ ﺭﻧﮕﯿﮟ ﺭﺿﺎ ﯾﺎ ﻃﻮﻃﯽِ ﻧﻐﻤﮧ ﺳﺮﺍ
ﺣﻖ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻭﺍﺻﻒ ﮨﮯ ﺗﺮﺍ، ﯾﮧ ﺑﻬﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﻬﯽ ﻧﮩﯿﮟ

گلشنِ ہند میں عشقِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نغمے گونج گونج اُٹھے… صبحِ تابندہ نمودار ہو گئی… کلیاں چٹکنے لگیں… ایمان کی فصل ہری بھری ہو گئی… رہزنوں کے عزائم خاک میں مل گئے… فضا مشک بار ہو گئی… رہِ ایماں منور ہو گئی… دل کے غبار دُھلنے لگے… ہاں وہ نغمہ ہی ایسا ہے جو صیقل کر دیتا ہے… اور چمک نگاہوں کو خیرہ کر دیتی ہے… نغماتِ رضا کی موجیں آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔۔۔

بھینی سُہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے
کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے

کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے
چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے

ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری
کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے

عنبر زمیں عبیر ہوا مشک تر غبار
ادنیٰ سی یہ شناخت تِری رہ گزر کی ہے
(امام احمد رضا)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے