ایڈیٹر کے قلم سے
کورونا وائرس کی وجہ سے ملک کے ناگفتہ حالات کسی سے پوشیدہ نہیں۔پہلے افراتفری کاماحول اوراب اکیس(۱۲) دنوں کالمبالاک ڈاؤن، حکومت کے کڑے فرامین، انتظامیہ کا سخت رؤیہ،دوکانیں بند، مکمل کرفیوسابلکہ اس سے بھی مشکل ماحول، ماضی قریب کی کچھ یاد دلاتاہے، آج سے تقریباً سات، آٹھ ماہ قبل جب ملک کی جنت کہے جانی والی ریاست کشمیرمیں مکمل لاک ڈاؤن کیاگیاتھا؛ بازار اور دوکان کی بات تو درکنار،مساجدمیں نماز وجماعت بالاے طاق، میت کی جنازہ اورکفن دفن تک پرپابندی لگادی گئی تھی، جن کے گھروں میں کسی کا انتقال ہوجاتاانہیں گھرہی کوقبرستان بناکراس میں دفن کرنا پڑتا آپسی روابط وابلاغ کے ذرائع مکمل موقوف ہوگئے تھے کہ وہ لوگ نہ ایک دوسرے سے کوئی رابطہ کرسکتے تھے اور نہ ہی کسی کو اپنی داستان دردوالم سنا سکتے تھے، ان کے گھروں میں اناج اور غلے کے نام پر کچھ بھی نہ تھا ان کے بچوں نے بھوک سے بلکتے دم توڑا، قوم کے مستقبل بننے جارہے طالب علموں کی تعلیم ایسی متأثر ہوئی کہ ان کے تعلیمی سال، کریئر کے سنہرے آغاز، بلندیوں پر پہنچنے کے حسین خواب چکنا چور ہوگئے، پوری قوم زبوں حالی کا شکار تھی کہ کوئی پرسان حال نہ تھا؛ ریاست کے لیڈران کو نظر بند کردیا گیا تو دوسری ریاستوں کے لیڈران اپنی جان ومال کے فکر مند ہوکر خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے، دیگر ممالک مسلمہ نے بھی کوئی مزاحمت نہیں کی۔ اور ہم؟ ہمارا کیا پوچھنا! ہم تو بس اپنی دنیا میں مست و مگن، اپنی زندگی آرام وسکون کے ساتھ گزار رہے تھے، ہمیں ان کی کیا پرواہ؟ وہ کوئی ہمارے گھر کے افراد تھے، یا ہمارے رشتہ دار؟ ہمارا ان سے کیا تعلق؟ جی ہاں! اس وقت ہم ”کل مومن اخوۃ“ کا درس مواخات سنانے والی قوم نہ تھے، اس وقت ہم وہ قوم نہ تھے جس کے لیے نبی کریمﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق ایک قلعے سا ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوطی فراہم کرتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ظلم دیکھ کر آنکھیں بند کرنا اس سے بھی بڑا ظلم ہوتا ہے لیکن اس وقت یہ سب باتیں ہمارے پتھر سے دل کو کہاں پگھلا سکتی تھیں، مگر ظلم کی ٹہنی کب تک ہری رہتی ہے، مظلوم کی دعاؤں میں بڑا اثر ہوتا ہے، اور خداے دوجہاں تو سب کا مالک ہے اس کی عدالت کو کب گوارا ہوتا کہ ایک طرف قوم کا ایک حصہ بھوک مری اور ظلم وتشدد کا شکار ہو اور دوسری طرف اسی قوم کا بڑا حصہ اس ظلم وبربریت پر آنکھیں بند کرکے آرام وسکون کی نیند سوئے، پھر کیا تھا ہماری شامت آئی اور خوب آئی کیوں کہ رب کی پکڑ بھی تو سخت ہوتی ہے (ان بطش ربک لشدید) بابری مسجد کا غیروں کے حق میں فیصلہ، شہریت ترمیمی بل (CAB) کو منظوری،این۔ آر۔ سی۔ کی لٹکتی تلوار، این۔ پی۔ آر۔ کا نفاذ جب چاروں جانب سے قوم پریشانیوں میں گھرتی چلی گئی تب اس قوم کو ہوش آیا اور احتجاجات پر اتری، اب باری تھی دوسری قوموں کی جن کے ظلم کے داستاں بہت طویل ہے تو ’کورونا وائرس‘ نامی عذاب نے جنم لیاجس کی تباہیوں نے پوری دنیا کی ناک میں دم کردیا، فراعین وقت سے لے کر ظالم قوموں تک سب کو اپنے نرغے میں لیا ہر جانب خوف وہراس کا موحول پیدا ہوگیا، گویا قیامت صغریٰ آئی ہو، دیگر قوموں کو عذاب میں گھرتے دیکھ ہم مسجدوں کی طرف بھاگے، مگر ہائے افسوس! خدا کی ناراضگی اس قدر کہ مسجدوں کے دروازے تک بند ہونے لگے، اور آج ہم اپنے ہی گھروں میں قید کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، اگر چہ ملک کے حالات ابھی تک اتنے ابتر نہیں ہوئے کہ انہیں کشمیر کی زبوں حالی سے تشبیہ دی جائے مگرعدالت خداوندی نے اس کی ایک جھلک ضرور دکھلا دی ہے یقینا ہمارے اعمال بد کا بدلہ ہی یہی تھا۔
محمد شعیب رضا نظامی فیضی
