نتیجۂ فکر: سید اولاد رسول قدسیؔ مصباحی
صورتِ غوثِ جلی شکلِ علی لگتی ہے
ان کی سیرت کی ہر اک شاخ ہری لگتی ہے
المدد غوث کہا جس نے صمیم دل سے
کرب کی سیلِ رواں اس سے ٹلی لگتی ہے
جیسے ہم آگئے طیبہ کی حسیں چھاؤں میں
ایسی بغداد کی پرنور گلی لگتی ہے
غوثِ اعظم کی یہ محفل کا ہے تابندہ اثر
برکتوں سے مری تقدیر بھری لگتی ہے
یوں تصور میں ہوئ جلوہ طرازی ان کی
دل کی بستی مری خوشبو سے بسی لگتی ہے
دامنِ غوث سے مربوط ہوئے جب سے ہم
گلشنِ زیست کی شاداب کلی لگتی ہے
جب سے کی عرض درِ غوث پہ شیئاً للہ
چادرِ فیض مرے سر پہ تنی لگتی ہے
جس میں ہوں ان کے کمالات کے اشعار بیاں
وہ زمیں فکر کی زر خیز بڑی لگتی ہے
قدسیؔ انوار کی بارش میں نہائ برسوں
ان کی یادوں کی حسیں ایک گھڑی لگتی ہے