تحریر: شاہ نواز عالم ازہری مصباحی، پرتاپ گڑھ
کسی بھی قوم کی کامیابی وکامرانی اور فتح ونصرت کی تاریخ رقم کرنے میں سب سے اہم رول اس قوم کے درمیان اتحاد ادا کرتا ہے، تاریخ کے اوراق شاہد ہے کہ قوموں کے عروج وزوال پر بلندی، ترقی وتنزلی، خوش حالی اور فارغ البال اخوت ومحبت وہمدردی آپسی اختلافات وانتشار وتفرقہ بازی اور باہمی نفرت وعداوت اہم ترین ثابت ہوئے ہیں ملت اسلامیہ کی تاریخ سے یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب تک فرزندان توحید کے درمیان اتحاد واتفاق کی شمع روشن تھی تو قوم فتح ونصرت اور کامیابی وکامرانی کا جھنڈا پوری دنیا میں لہرا رہی تھی اور جب اتحاد واتفاق اخوت ومحبت کے دامن کو اپنے پیٹھ کے پیچھے ڈال کر اختلافات وانتشار کے دامن فریب سے وابسطہ ہوگئے تو قوم کو سخت سے سخت بدترین سے بدترین شکت وہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، سپرپاور قوم کی حیثیت رکھنے والا مسلمان جن کے بارے میں قرآن شاہد ہے (ولاتھنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مومنین ) ترجمہ، اور سستی نہ کرو اور غمزدہ نہ ہو تمہیں غالب آوگئے اگر تم مومن کامل ہو، لیکن اسکے باوجود آج مسلمان ذلت ورسوائی کے دلدل میں گرفتار ہے، قرآن کریم نے اتحاد واتفاق کی اہمیت پر بے پناہ زور دیکر فرمایا، کہ اللہ کے رسی کو مضبوطی سے تھام لو آپس میں تفرقہ بازی نہ کرو اور اپنے اوپر اللہ کے اس فضل کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو جوڑا اور تم لوگ اللہ کی رحمت سے آپس میں بھائ بھائ ہوگئے تم لوگ آگ کے کنارے تھے تو اللہ تعالی نے تم کو اس سے بچا لیا ۔آحادیث رسول آثار صحابہ اور امت مسلمہ کے تمام مصلحین اور داعین ،آئمہ مفکرین ودانشوران نے اتحاد کی دعوت دی ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ اختلافات کا شکار کوئی قوم ہے تو وہ قوم مسلم ہے، اس وقت سیاسی اقتصادی غلبہ حاصل کرنے کے لئے کئ متضاد مذہب کے مفکرین اور دوسرے کلچر کے لوگ بھی ایک ہوچکے ہیں جو کل تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے وہ لوگ بھی آج کل ایک پلیٹ فارم پر نظر آرہے ہیں جن کے پاس اتحاد کے لئے کوئی نقطہ نظر نہیں، جبکہ مسلمانوں کے پاس اختلافات کے باوجود اتحاد قائم کرنے کے لئے بہت سی مشترکہ چیزیں موجود ہیں جن میں دو سب سے اہم ہے ایک اللہ کی وحدانیت اور دوسرا رسول صلیﷲ علیہ وسلم کی رسالت اور انکے علاوہ بہت سے ایسے امور بھی ہیں جن پر مسلمانوں کے سبھی فرقہ ومسلک کے لوگوں کا اتحاد ہے لیکن اسکے باوجود مسلمان عملی سطح پر اختلافات کے شدید شکار ہیں، دوسری بات یہ کہ قوم مسلم کے رہنماء ہمیشہ اتحاد کی بات کرتے ہیں اسکے باوجود بھی یہ مشن کامیاب نہیں ہوتا ہے کبھی کامیابی کے کنارے پہونچ کر بھی ناکام ہوجاتاہے ،ہندوستان کے حالات بھی مسلمانوں کے لئے انتہائی سنجیدہ اور مشکلات کی کشتی میں سوار ہیں ہر آنے والا دن ایک نئی مصیبت اور طلوع قیامت کی خبر دیتا ہے ملک کی آب وہوا ہر وقت اعلان کررہی ہے کہ مسلمانوں متحد ہوجاؤ ورنہ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔لیکن ہم سیاسی، سماجی، اور قومی سطح پر شدید اختلافات کے شکار ہیں کوئ سلسلہ کو لیکر تو کوئ ذات وبرادری کو لیکر اختلاف کررہا ہے، اس پرفتن دور میں کوئ بھی انسان پہل کرنے کو تیار نہیں ہے کہ جو عملی سطح پر اس مہلک مرض کا ازالہ کرسکے، زیر نظر تحریر میں ہم ان شاء اللہ تعالی کچھ ایسی چیزیں تحریر کرنے کی کوشش کرنے جارہے ہیں کہ اگر عمل کریں تو اپنے درمیان اتحاد قائم کرسکتے ہیں، خوف ہراس کے اس ماحول سے باہر آسکتے ہیں اسکے لئے تمام مسلمانوں کو اپنے اسلاف ورہنماؤں کی پیروی کرنی ہوگی تمام سلاسل ومسالک کے لوگوں کو آپسی رائے سے سمجھوتہ کرنا ہوگا، کیونکہ اتحاد یہ نہیں ہے کہ آپ دوسرے کو اپنی بات ماننے پر مجبور کررہے ہیں بلکہ قیام اتحاد درحقیقت اس کوشش کا نام ہے کہ امت کے مفاد کی خاطر آپ اہنے خیالات سے سمجھوتہ کرکے دوسروں کی تائید کررہے ہیں، اس سلسلہ میں سب سے پہلے مسلکی وخانقاہی وذات برادری کے اختلافات کو بالائے طاق رکھنا ہوگا، اس کی سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ ہم اپنے نظریات اور اجتہادات پر عمل کریں، اسکی تشریح کریں، لیکن دوسروں کی تنقید نہ کریں، اختلافات اپنے مسالک ونظریات کی تشریح سے نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ تنازع اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اپنے مسلک وخانقاہ کی تائید میں دوسروں کی تنقید وتنقیص کرتا ہے رہا فقہی اختلافات تو شریعت اسلامیہ کا طرہ امتیاز ہے، دور صحابہ میں بھی فقہی اور علمی اختلاف رہا ہے لیکن صحابہ کرام کے دلوں میں ایک دوسرے کے بارے میں ذرہ برابر بھی رنجش نہیں تھی، یہ اختلاف دورہ تابعین اور بعد کے آئمہ وفقہاء کے درمیان بھی رہا لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود بھی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تھے اور بغض وحسد وکینہ سے پاک تھے، لیکن آج یہ علمی اور فقہی اختلاف بغض وحسد وعناد کا سبب ہوگیا ہے، ایک سلسلہ کے لوگ دوسرے سلسلہ کے وجود وبات کو ماننے کو تیار نہیں ہے، سچ تو یہ ہے کہ آج کے دور میں مذہب کے تبلیغ کے بجائے لوگ سلسلہ وخانقاہ کے تبلیغ میں مصروف ہے، قیام اتحاد کے لئے ہم سب کو ملکر ان تمام خرافات واختلافات کو بالائے طاق رکھنا ہوگا،قیام اتحاد کے لیے چند چیزوں کو ذکر کرنے کی کوشش کرنے جا رہا ہوں، اللہ رب العزت کی ذات سے یہ امید ہے کہ سب ملکر اس پہ عمل کریں تو ان شاء اللہ تعالی ہمارے درمیان بھی اتحاد واتفاق کا جھنڈا بلند ہوتاہوا نظر آئےگا، ۔اولا، ہم سب ملکر کلمہ طیبہ کے اساس پر اتحاد ملت کو فروغ دیں، قوم وملت کے مشترکہ مسائل کے لئے مشترکہ طور پر جد وجہد کریں، ہم سب رسول اعظم اور صحابہ کرام، امہات المومنین اور اہل بیت اطہار، اور تمام سلاسل حقہ کے بزرگوں کا احترام ملحوظ رکھیں، اور اس بات کا مکمل خیال رکھیں کہ دوسرے سلاسل کے حاملین جن بزرگوں سے عقیدت واحترام کا تعلق رکھتے ہیں علمی وفکری مباحث کے درمیان انکے بارے میں ایسی باتیں نہ کریں جو انکے عقیدت مندوں کی دل آزاری کا باعث ہو، مسالک کے اختلافات کی گفتگو کو درسی اور علمی مجالس تک ہی محدود رکھیں حتی الامکان عوام الناس کے سامنے ایسے اختلافات کو لانے سے گریز کریں جو عوام کے اندر اختلاف وانتشار کا باعث بنے، اور اگر لانا بھی ضروری ہوتو آداب اختلاف مکمل طور سے ملحوظ رکھیں، اور داعیانہ اسلوب وطریقہ سے ہم مکمل طور سے اجتماعیت کا ثبوت پیش کریں، اور اگر کبھی اختلاف ہوجائے گاؤں یا محلہ وغیرہ میں تو ہماری کوشش ہوکہ باہمی توافق اور صلح کے ذریعے سے مسئلہ حل ہوجائے پولیس اور مقدمہ بازی کی نوبت نہ آئے اور اعدائے اسلام ہمارے اختلاف سے فائدہ نہ اٹھاسکیں، جیسا کہ موجودہ دور میں اعدائے اسلام ہمارے اختلافات سے مکمل طور سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، عوام کو ملک مخالف پالیسیوں سے آگاہ کریں اور انہیں یہ بتائیں کہ اس طرح کی پالیسیاں ملک کے وقار کے خلاف ہے یہاں کی عظمت کو خطرات لاحق ہے، اقتصادی، سیاسی، سماجی، اور تعلیمی سطح پر ملک شدید بحران کا شکار ہورہا ہے جن کا خمیازہ یہاں کے عوام کو بھگتنا پڑ ے گا، تمام ذات برادری کے لوگوں کو اس ملک کی ترقی اور کامیابی کے لئے جد وجہد کرنا ہوگا۔ ۔ملک میں رہنے والے غیر مسلموں کے سامنے اسلامی تعلیمات بھی پیش کی جائے اور انہیں یہ بتایا جائے کہ قرآن اور اسلام کا غیر مسلموں کے تعلق سے کیا نظریہ ہے، انکے دلوں سے وہ شکوک وشبہات اور غلط فہمیاں بھی مذاکرات کے میز سجا کر دور کرنے کی کوشش کریں جو اسلام کا صحیح پیغام ہے اسکے ذریعے سے اور نیز یہ بھی بتائے کہ قرآن وحدیث ملک میں بھائ چارہ اخوت ومحبت کا پیغام دیتا ہے، میرا خیال یہ ہے کہ ان تمام امور کو شوشل میڈیا، میڈیا چینل، اور اخبارات کے ذریعے سے بھی تشہر کیا جائے تاکہ دنیا بھر میں یہ پیغام جائے کہ ہندوستان کا مسلمان امن وامان اور ملک کے سالمیت کے لئے کل بھی پیش پیش تھا۔ اور آج بھی وہ اس کے لئے مسلسل کوشاں ہیں، سیاسی، سماجی وقار کی بحالی اور مسلمانان ہند کی مشکلات ختم کرنے کے لئے مشترکہ طور پر ایک سیاسی تنظیم بھی تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے، مسلمان ملک میں مؤثر ہونے اور اپنی حیثیت ثابت کرنے کے لئے سیاست میں اثر ورسوخ حاصل کرنا ہوگا، سیاسی سطح پر مضبوط ہونا پڑےگا، آج ملک میں مسلم ایم ایل اے، ایم پی، اور دیگر نمائندہ کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لیکن انکے سامنے کوئی ایجنڈا نہیں ہے، عام نمائندوں کی طرح وہ بھی کام کرتے ہیں ۔اس لئے بہتر ہوگا کہ ایک سیاسی فورم کی تشکیل بھی ہو، اس میں تمام اقلیتیوں اور مظلموں کے طبقات کو بھی شامل کرنا ہوگا، باصلاحیت اور نیک امیدوار کو ٹکٹ دلوایا جائے ،کسی بھی ایک سیاسی پارٹی سے تعلقات بنانے کے بجائے جہاں جس پارٹی سے امید ہو یا کوئ معاہدہ ہوجائے وہاں اسکی خفیہ طور پر حمایت کریں، ان تمام کوششوں کو بروئے کار لانے کے لئے تمام مذہبی رہنماؤں کو آگے آنا ہوگا اور اپنے خیالات سے سمجھوتہ کرنا پڑےگا زمینی سطح پر محنت وجد جہد کرنی پڑےگی، اتحاد واتفاق کے تعلق سے یہ چند چیزیں تھی جو میں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے اور میرا یقین ہے کہ جو اللہ رب العزت نے فرمایا وہی سچ ہے اس پر عمل کر کے ایک مرتبہ پھر امت مسلمہ سرخرو اور کامیابی کی دہلیز پر پہونچ سکتی ہے اور اپنی کھوئ ہوئ عظمت، شہرت وعزت کو دوبارہ بحال کرسکتی ہے، اگر ہم اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے تو ذلت ورسوائی اور بزدلی مزید اس قوم کی مقدر بن جائے گی اس لئے سب سے پہلے ہمیں بیدار ہونا پڑے گا جب ہم بیدار ہونگے تو پھر قوم بیدار ہوگی، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ان اللہ لایغیر مابقوم حتی یغیر مابانفسہم ۔کسی شاعر نے اسکی ترجمانی کی ہے خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو خیال جسے آپ اپنی حالت بدلنے گا، متحد ہوتو بدل ڈالو زمانے کا نظام، منتشر ہوتو مرجاؤ شور مچاتے کیوں ہو، اللہ تعالی یم سب کو اتحاد واتفاق سے رہنے اور ایک دوسرے سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔