تحریر : محمد اشرف رضا قادری
مدیر اعلیٰ سہ ماہی امین شریعت
بریلی شریف
حقیقت کے اعتبار سے شعر کے دو اجزا ہیں ، دو لوازم ہیں اور دو شرائط ہیں ۔ محاکات و تخیل شعر کے اجزا ہیں ۔ اکثارِ الفاظ و مطالعۂ صحیفۂ کائنات اس کے لوازم ہیں اور وزن و قافیہ ، شعر کے لیے شرط ہیں ۔ مروجہ اصنافِ سخن میں شعر گوئی کے لیے وزن و قافیہ شرطِ لازم کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ شعر گوئی کے لیے ’’ ردیف ‘‘ لازم و ضروری نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شعرائے قدیم و جدید کے دواوین و کلیات میں غیر مردّف کلام بھی پائے جاتے ہیں ۔ تاہم ردیف کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ جس کلام میں ردیف کی پابندی کی جاتی ہے ، اس کو کما حقہ برتنا ، شعری مہارت اور کمال ہنر مندی کی دلیل سمجھی جاتی ہے ۔ کیوں کہ نظم کے ہر شعر میں پیش کیے گئے مضمون اور خیال کی ادائیگی ردیف پر ہی منحصر ہوتی ہے اور اس موقع پر شاعر کی شعری لیاقت ، فنی رکھ رکھاؤ اور اس کے اسلوب کی شائستگی و دلکشی کا پتہ چلتا ہے ۔ ردیف طویل بھی ہوتی ہے اور متوسط و مختصر بھی ۔ لیکن بالعموم ردیف مختصر ہوتی ہے اور قادر الکلام شاعر اس مختصر ردیف ( جو کبھی ایک لفظ اور کبھی ایک جملہ کی صورت میں ہوتی ہے ) شعر کو بلاغت و معنویت کے آسمان پر پہنچا دیتا ہے ۔ حضرت رضا بریلوی علیہ الرحمہ جیسے مایۂ ناز اور قادر الکلام نعت گو شاعر نے جہاں سنگلاخ اور دشوار ترین زمین میں سخت قوافی میں اپنی جولانِی طبع کا مظاہرہ کیا ہے ، وہیں دشوار ترین ردائف کا استعمال کر کے اپنی قادر الکلامی کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔
اعلیٰ حضرت نے اپنی باکمال نعتیہ شاعری میں جن منفرد ردیفوں کا استعمال کمالِ مہارت کے ساتھ کیا ہے ، وہ یہ ہیں :
( 1 ) نور کا
( 2 ) پہ لاکھوں سلام
( 3 ) تم پہ کروڑوں درود
( 4 ) عرب
( 5 ) عارض
( 6 ) گیسو
( 7 ) ایڑیاں
( 8 ) ہاتھ میں ۔
ان میں خصوصیت کے ساتھ عرب ، گیسو ، عارض ، ایڑیاں وغیرہ ایسی ردیفیں ہیں ، جن کا نمونہ اردو نعتیہ شاعری میں تقریبا ناپید ہیں ۔ امام موصوف نے لفظِ’’ عرب ‘‘کی ردیف پر مشتمل دو نعتیں کہی ہیں ، جو فصاحت و بلاغت اور فکری و فنی لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں ۔ ان دونوں کلام سے ان کی رفعتِ تخیل ، پرواز کی بلندی ، شاعرانہ کمال ، فنی حذاقت اور عشق و عقیدت کے علاوہ سوز و گداز پر مبنی ان کے قلبی واردات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ نمونے کے طور پر چند اشعار نذرِ قارئین ہیں :
تابِ مرآتِ سحر گردِ بیابانِ عرب
غازہ روئے قمر دودِ چراغانِ عرب
اللہ اللہ! بہارِ چمنستانِ عرب
پاک ہیں لوثِ خزاں سے گل و ریحانِ عرب
عرش سے مژدۂ بلقیس شفاعت لایا
طائرِ سدرہ نشیں مرغِ سلیمان عرب
حسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں
سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردان عرب
کوچہ کوچہ میں مہکتی ہے یہاں بوئے قمیص
یوسفستاں ہے ہر اک گوشۂ کنعانِ عرب
کرمِ نعت کے نزدیک تو کچھ دور نہیں
کہ رضائے عجمی ہو سگِ حسانِ عرب
اعلیٰ حضرت نے ردیف ’’گیسو ‘‘ پر بھی بڑا اچھوتا نعتیہ کلام پیش کیا ہے ، جو فصاحت و بلاغت اور معنیٰ آفرینی کے ساتھ حسنِ تغزل کا انمول نمونہ ہے ۔
چمنِ طیبہ میں سنبل جو سنوارے گیسو
حور بڑھ کر شکنِ ناز پہ وارے گیسو
ہم سیاہ کاروں پہ یا رب تپشِ محشر میں
سایہ افگن ہوں ترے پیارے کے پیارے گیسو
سوکھے دھانوں پہ ہمارے بھی کرم ہو جائے
چھائے رحمت کی گھٹا بن کے تمہارے گیسو
بھینی خوشبو سے مہک جاتی ہیں گلیاں واللہ
کیسے پھولوں میں بسائے ہیں تمہارے گیسو
اسی طرح ’’ عارض ‘‘ اور ’’ ایڑیاں‘‘ جیسی منفرد ردیف میں آپ نے نعتیہ شاعری کےجو فکر انگیز اور طرب آمیز نمونے پیش کیے ہیں ، وہ اردو شاعری کے لیے خاصے کی چیز ہیں ۔ ان دشوار ترین ردیفوں کو اتنی مہارت کے ساتھ شعر کا حریری جامہ پہنانا کہ مضمونِ شعر میں کسی قسم کا ابہام ، جھول یا پیچیدگی پیدا ہوئے بغیر سلاست و روانی برقرار رہے ، شاعر کی فنی و لسانی مہارت کی روشن دلیل ہے ۔ آئیے اور امام احمد رضا خان محدث بریلوی کے خامۂ اعجاز رقم کا جلوہ دیکھیے :
نارِ دوزخ کو چمن کر دے بہارِ عارض
ظلمتِ حشر کو دن کر دے نہارِ عارض
میں تو کیا چیز ہوں خود صاحبِ قرآں کو شہا
لاکھ مصحف سے پسند آئی بہارِ عارض
جیسے قرآن ہے ورد اس گل محبوبی کا
یوں ہی قرآں کا وظیفہ ہے وقارِ عارض
آہ بے مائگیِ دل کہ رضائے محتاج
لے کر اک جان چلا بہرِ نثارِ عارض
عارضِ شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں
عرش کی آنکھوں کے تارے ہیں وہ خوشتر ایڑیاں
جابجا پرتو فگن ہیں آسماں پر ایڑیاں
دن کو ہیں خورشید، شب کو ماہ و اختر ایڑیاں
تاجِ روح القدس کے موتی جسے سجدہ کریں
رکھتی ہیں واللہ وہ پاکیزہ گوہر ایڑیاں
ایک ٹھوکر میں اُحد کا زلزلہ جاتا رہا
رکھتی ہیں کتنا وقار اللہ اکبر ایڑیاں
چرخ پر چڑھتے ہی چاندی میں سیاہی آگئی
کرچکی ہیں بدر کو ٹکسال باہر ایڑیاں
اے رضا طوفانِ محشر کے تلاطم سے نہ ڈر
شاد ہو، ہیں کشتیِ امت کو لنگر ایڑیاں