تحریر : ابوہریرہ رضوی مصباحی-:رام گڑھ
مجلس علماے جھارکھنڈ ـ انڈیا
پہلے لقب ہمارے بزرگ حضرات دیا کرتے تھے، لیکن آج جس کی خود کوئی حیثیت نہیں وہ بھی دوسروں کو چاپلوسی کے لیے بڑے بڑے القابات سے نواز رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ وہ شخص اس لقب کا متحمل نہیں.
اس موقع پر مجھے حضرت علامہ ارشد القادری اور ڈاکٹر شرر صاحبان یاد آرہے ہیں۔
ایک موقع پر شرر مصباحی صاحب نے علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ سے کہا تھا کہ حضرت میں مفتی شریف الحق امجدی کے لیے ایک لقب سوچ رہا ہوں۔ علامہ کو انھوں نے بتایا کہ مفتی شریف الحق امجدی صاحب کو "فقیہ اعظم” کا لقب دیا جائے۔ اتنا سننے کے بعد علامہ صاحب سر جھکا لیتے ہیں اور کچھ دیر بعد سر اٹھا کر اس کی حمایت کردیتے ہیں۔
بعد میں پھر کسی موقع پر شرر صاحب نے علامہ سے کہا کہ آپ نے اس موقع پر سر کیوں جھکا لیا تھا۔ اس پر علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے یہ جواب دیا کہ :
میں نے سر جھکا کر غور کیا اور جائزہ لیا کہ کہیں کوئی دوسرا تو اس لقب کا مستحق نہیں ہے۔ جب میں نے جائزہ لے لیا اور دیکھا کہ ہندوستان میں کوئی دوسرا اس وقت، اس لقب کا مستحق نہیں ہے، اگر کوئی مستحق ہے تو وہ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی ہیں، لہٰذا انھیں "فقیہ اعظم” کا لقب دے دیا جائے۔
افسوس! آج بےجا القابات ایسے ایسے لوگوں کے ساتھ جوڑے جارہے ہیں کہ اس لقب کے ساتھ کھلواڑ ہی کا نام دیا جاسکتا ہے ۔ یہ لمحہء فکریہ ہے۔
{ موضوع کی مناسبت سے عزیز گرامی مفتی فیضان سرور مصباحی اورنگ آبادی کی یہ بات بھی کافی معنویت کی حامل ہے کہ :}
القابات سے کھیلنے کے بجائے ممدوح کے کارناموں سے دنیا کو روشناس کرائیں
القابات کی حیثیت محض ایک دعوی کی سی ہے، اور اپنے ممدوح کے کارناموں کو ذکر کردینا اس دعوے کی واضح دلیل مانی جاتی ہے۔
ہمیشہ دلیل سے بات کی کوشش ہونی چاہیے، کبھی محض دلیل ہی سامع کے لیے کافی ہوجاتی ہے، وہاں دعوی کی بالکلیہ کوئی حاجت نہیں ہوتی ۔
جب کہ کبھی دلیل سے عاری ہوکر محض دعوی پیش کر دینے کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ عقیدت اور غلو پر مبنی ایک خراج تحسین ہے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
اس لیے اپنے ممدوح کا تعارف پیش کرتے وقت یہ نہ کہیے کہ وہ ایں تھے، وہ آں تھے، وہ چنیں تھے وہ چناں تھے. بلکہ صریح انداز میں ان کے کارناموں کو پیش کردیجیے، وہی مطلب برآری کے لیے کافی ہوگا۔
کروڑوں القابات کے استعمال کی زحمت سے نجات حاصل کرنے کے لیے یہ ایک بے مثال نسخہ کیمیا ہے. اور اپنے ممدوح کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک بہترین طریقہ بھی۔