تحریر: نازش المدنی مرادآبادی
حسبِ فرمائش: عزیز القدر مولانا مصطفیٰ رضا ( ناگپور)
یوں تو ماہِ صفر اپنے دامن میں کئی خصوصیات کو سمیٹے ہوے ہے…مگر بطور خاص اس ماہِ مبارک کو عالم اسلام کی ایسی دو عظیم المرتبت،اور نابغہ روزگار شخصیات یعنی امام ربانی حضرت سیدنا شیخ مجدد الف ثانی نقشبندی سرہندی قدس سرہ العزیز ،اور مجدس اعظم، فقیہ عبقری، امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان محدث بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نسبت حاصل ہے…احیاے دین کے سلسلہ میں ان دونوں اماموں کی خدمات یقیناً آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں… دونوں بزرگوں نے اپنے اپنے ادوار میں عقائد حقہ اور نظریات اہل سنت پر پہرہ دیا… اور ہر اٹھنے والے فتنے کی بروقت سرکوبی کی…باطل کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کیا….
آپ علیہما الرحمہ کے افکار ونظریات کے مطالعہ سے روحِ ایماں کو بالیدگی اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی حیات وخدمات کا اگر مطالعہ کریں… تو معلوم ہوگا کہ امام اہل سنت نے پوری زندگی مجدد الف ثانی سرہندی قدس سرہ کے مشن کو فروغ دینے میں خصوصی کردار ادا کیا ہے…مگر تعجب اور افسوس اس بات پر ہے کہ ٰ حضرت علیہ الرحمہ کے افکار ونظریات اور تعلیمات کا فروغ تو خوب عام ہے…مگر امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ کی تعلیمات پر کوئی خاص کام نظر نہیں آتا….جس طرح امام اہل سنت فاضل بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے عقائد ونظریات کو عام کرنا ہمارا منصبی فریضہ اور ذمہ داری ہے… اس سے کہیں زیادہ تعلیماتِ امام ربانی کی ترویج واشاعت کرنا ہم پر ضروری ہے…لھذا جہاں اعلیٰ حضرت کے افکار سے لوگوں کو آشنا کرایا جائے…وہیں امام ربانی کے نظریات سے بھی عوام الناس کو متعارف اور واقف کرایا جائے تاکہ نقشبندی قادری فیضان ہر سو عام ہو…
اور بطور خاص جلسوں، جلوسوں اور کانفرنسوں میں ان دونوں بزرگوں کے افکار ونظریات کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے… تاکہ لوگ ان عبقری شخصیات سے زیادہ سے زیادہ مستفیض مستنیر ہو سکیں۔
آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی اور امام اہل سنت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہما الرحمہ کے احوال وآثار اور افکار وخیالات میں کئی جہات اور کئی لحاظ سے یکسانیت اور مماثلت ومشابہت ہے۔
بعض اقدار مشترکہ قارئین کی نذر کیے جاتے ہیں۔
علمی خاندان سے نسبت: امام ربانی سیدنا مجدد الف ثانی قدس سرہ کا تعلق ایسے بلند پایہ علمی فکری اور روحانی خاندان سے ہے جو بلاشہ صدیوں سے اپنے علم وادب کے انوار سے عالم اسلام کو مستفیض ومستنیر کر رہا تھا۔آپ کے والد ماجد مخدوم ملت حضرت خواجہ عبد الاحد سرہندی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے عہد کے جلیل القدر عالم دین اور رفیع الحال صوفی تھے۔علاوہ ازیں مجدد الف ثانی کے تمام اجداد کا شمار اپنے دور کے ممتاز شخصیات میں ہوتا تھا۔
اسی طرح امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان صاحب مجدد بریلوی قدس سرہ العزیز کے آباد واجداد بھی علم وفضل کے کوہ گراں تھے۔آپ کے والد ماجد رئیس المتکلمین حضرت علامہ الشاہ مفتی نقی علی خان اور آپ کے جد کریم مفتی اسلام حضرت علامہ مفتی رضا علی خان بریلوی علیہما الرحمہ اپنے عہد کے ممتاز علماء میں شمار کیے جاتے تھے۔
ماہ ولادت وماہ وصال: ان دونوں ہستیوں کے درمیان حسین امتزاج یہ بھی ہے کہ جس طرح دونوں کے ماہ ولادت ایک ہے اسی طرح ماہ وصال بھی ایک ہی ہے۔مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی علیہ الرحمہ کی ولادت باسعادت 14 شوال المکرم971ھ میں ہوئی(جواہر مجددیہ ص:21 مطبوعہ ادارہ اسلامیات)
آپ کے بارے میں آپ کے والد گرامی نے ایک عجیب خواب دیکھا تھا۔ جس کہ تعبیر شاہ کمال کتھیلی علیہ الرحمہ نے بیان فرمائی” آپ کے یہاں ایسا بچہ پیدا ہوگا جس کی برکت سے ظلمت ،کفر والحاد اور بدعت دور ہوگی، یہ فرزند بڑے بڑے بادشاہوں کو نیچا دکھاے گا۔نیز ایک مرتبہ آپ کی والدہ ماجدہ نے فرمایا : اس بچے کی عمر دراز ہوگی، یہ عارف کامل ہوگا اور ہمارے تمہارے جیسے اس کے دامن فیض سے وابستہ ہوں گے(زبدۃ المقامات ص:127 مطبوعہ سیالکوٹ)
آپ کا وصال پر ملال 29 صفر المظفر 1034بروز دو شنبہ آپ نے اپنے وصال کی خبر پہلے ہی دے دی تھی(وصال احمدی(7)مطبوعہ مرادآباد انڈیا)
ان امور میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ کی آپ کے ساتھ کمال مماثلت ہے۔
چنانچہ ملک العلماء علامہ سید ظفر الدین رضوی بہاری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے 10 شوال المکرم ۱۲۷۲ھ بروز ہفتہ بوقتِ ظہر مطابق ۱۴؍ جون ۱۸۵۶ء دنیا میں قدم رکھا۔آپ کے جد امجد نے عقیقہ کے دن خوش گوار خواب دیکھا۔جس کی تعبیر یہ تھی کہ یہ فرزند فاضل اور عارف ہوگا(حیات اعلیٰ حضرت ج:1 ص:11)
آپ کا وصال 25 صفر المظفر 1340ھ کو ہوا وفات سے چند ماہ قبل اپنی تاریخ وصال لکھ دی تھی(حیات امام اہل سنت ص:37 مطبوعہ رضا اکیڈمی لاہور)
اسم گرامی: حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ اسم گرامی احمد ہے۔ اعلیٰ حضرت بریلوی قدس سرہ کا اسم گرامی بھی احمد ہے۔ جسے دنیاے سنیت نے شیخ احمد سرہندی اور امام احمد رضا فاضل بریلوی کے ناموں سے محفوظ کیا ہے۔
حفظ قرآن: امام ربانی رضی اللہ عنہ نے حفظ قرآن کی سعادت شاہی قلعہ گوالیار میں عالم اسیری میں حاصل کی خود فرماتے ہیں:
دوسری بات یہ کہ قرآن پاک سورہ عنکبوت تک ختم ہو گیا ہے… رات کو جب اس مجلس سے واپس آتا ہوں تو تراویح میں مشغول ہو جاتا ہوں۔حفظ کی یہ دولت عظمی اس پریشانی میں حاصل ہوئی جو جان جمعیت تھی الحمد للہ اولاً وآخراً (مکتوبات مجدد الف ثانی:مکتوب 43 جلد سوم)
اعلیٰ حضرت نے بھی آغاز تعلیم میں نہیں بلکہ فراغت تعلیم سے کافی دیر بعد حفظ قرآن کا شرف حاصل کیا تھا۔چنانچہ خود ہی فرماتے ہیں : بعض ناواقف حضرات میرے نام کے آگے ‘حافظ’ لکھ دیا کرتے تھے۔ حالانکہ میں اس لقب کا اہل نہیں تھا۔یہ ضرور ہے کہ اگر کوئی حافظ صاحب قرآن پاک کا رکوع پڑھ کر میرے سامنے سنا دیتے ،دوبارہ مجھ سے سن لیتے بس ایک ترتیب ذہن نشین کر لیتا۔پھر آپ نے رمضان المبارک کے مہینے میں سارا قرآن حفظ کر لیا۔فرماتے ہیں بحمد اللہ میں کلام مجید بالترتیب بکوشش یاد کر لیا اور یہ اس لیے کہ بندگان خدا کا کہنا غلط ثابت نہ ہو۔(حیات اعلیٰ حضرت ج:1 ص:36 مطبوعہ لاہور)
بارگاہِ رسالت سے رابطہ:
دونوں اماموں کو بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں یکساں مقبولیت حاصل تھی چنانچہ قیم طریقہ مجددیہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک بار سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا ارشاد ہے فرمایا:میری امت میں ان کی مثل اور کون ہے؟ میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ان کے مکتوبات بھی آپ کی نظر سے گزرے ہیں ؟ فرمایا اس میں سے تمہیں کچھ یاد ہو تو سناؤ ! میں نے ایک مکتوب کی یہ عبارت پڑھی "سبحانہ تعالیٰ وراء الوراء ثم وراء الوراء” بہت پسند کیا محظوظ ہوتے رہے، فرمایا پھر پڑھو میں نے پھر وہی عبارت پڑھی تو اس سے بھی زیادہ تعریف کی یہ مبارک صحبت کافی دیر تک رہی(مقامات مظہری فصل 14 مطبوعہ لاہور)
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کمال کا رابطہ تھا جو آپ سیرت کے کئی پہلوؤں سے جھلکتا تھا۔ مثلا مدینہ طیبہ کی حاضری کے دوران آپ نے ایک مشہور نعت لکھی۔
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
تو اسی رات نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اپنی زیارت سے جاگتی حالت میں سرفراز فرمایا
اسی طرح جب اعلیٰ حضرت رضی الله تعالیٰ عنہ کا وصال ہوا تو کسی شامی بزرگ نے حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا انتظار فرما رہے ہیں۔ انہوں نے عرض کی حضور کس کا انتظار ہے؟ حضور نے فرمایا احمد رضا کا انہوں نے خواب 25 صفر المظفر کی شب میں دیکھا تھا۔تحقیق کی تو اعلیٰ حضرت قدس سرہ کا وصال بھی اسی رات اسی وقت ہوا تھا جب وہ شامی بزرگ جلوہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادکام ہو رہے تھے۔(سوانح اعلیٰ حضرت ص:319 مطبوعہ احمد نگر بہار انڈیا)
یہ مجدد الف ثانی اور امام احمد رضا فاضل بریلوی رضی اللہ عنہما کی شخصی زندگی کے مختلف گوشے تھے۔ اب آئیے ان دونوں بزرگوں کے افکار ونظریات اور تعلیمات کا بھی جائزہ لیتے ہیں جن میں حد درجہ کی مماثلت و مشابہت ہے۔
صفات باری تعالیٰ: جس طرح ذات باری بے مثال ہے… اسی طرح اس کی صفات کاملہ بھی بے مثال ہیں۔ قدیم ،ابدی اول ازلی ہیں… متکلمین حق کے نزدیک صفات غیر ہیں نہ عین، صوفیاے کرام لاموجود الاّ اللہ کے قائل ہیں….اس لیے وہ صفات باری تعالیٰ کو غیر ذات نہیں بلکہ عین ذات سمجھتے ہیں…حضرت مجدد الف ثانی کمالات ذاتیہ میں صفات کو عین ذات کہتے ہیں ملاحظہ ہو: اے فرزند! اس پوشیدہ سر کو سن کہ کمالاتِ ذاتیہ حضرت ذات تعالیٰ کے مرتبہ میں ذات کا عین ہیں۔مثلاً علم کی صفت اس مقام میں حضرت ذات کا عین ہیں، اور ایسے ہی قدرت وارادہ اور تمام صفات کا حال ہے۔اور اس مقام میں حضرت ذات بتمامہ علم ہے اور ایسے ہی بتمامہ قدرت ہے نہ یہ کہ حضرت ذات کا بعض علم ہے اور بعض قدرت کہ وہاں بعض ہونا اور جزو بننا محال ہے(مکتوب 234 ج:اول)
اسی طرح امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے بھی صفات کو ذات سے لاغیر سمجھتے ہیں فرماتے ہیں: وحقيقته بها هي وما هي الا عين الذات من دون زيادته اصلا
ترجمہ: اور حقیقت یہی ہے کہ صفات ذات کا عین ہیں بغیر کسی زیادت کے(المعتمد المستند ص: 49 مطبوعہ اسنبول)
تقدیس باری تعالیٰ: قرآن اور صاحب قرآن نے یہی بتایا کہ ذات باری تعالیٰ ہر نقص وعیب سے پاک وصاف اور منزہ ومبرہ ہے اور یہی نظریہ صدیوں سے متواتراً ومتوارثاً چلا آ رہا ہے مگر بعد میں کچھ ایسے ناعاقبت اندیش عناصر بھی پیدا ہوے جنہوں نے اس قرآنی ،عرفانی ،حقانی اور صدیوں پرانے مسلمہ نظریہ کو مسخ کرنے کی ناپاک کوشش کی خاص طور پر ابن حزم ظاہری اور ابن تیمیہ اور ان کو شیخ الاسلام کہنے والے کرم فرماں وغیرہ وغیرہ۔۔
تاریخ گواہ ہے کہ تقدیس باری تعالیٰ کے نظریہ کی حفاظت وصیانت میں ان دو بزرگ ترین ہستیوں امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی اور امام اہل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس سرہ نے خاصا کردار ادا کیا ہے۔ چنانچہ امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ فرماتے ہیں: او تعالیٰ از جمیع صفات نقص وسمات حدوث منزہ ومبرہ است
یعنی اللہ تعالی تمام صفات نقص اور سمات حدوث سے پاک ہے(مکتوب 266 ج:1مطبوعہ کراچی)
کذب وجہل کے بارے میں فرماتے ہیں: وعید میں خلاف ہونا وعدے میں خلاف کی طرح کذب کو مستلزم ہے۔اور یہ بات حق تعالیٰ کی بلند بارگاہ کے مناسب نہیں ہے۔یعنی حق تعالیٰ نے ازل میں جان لیا تھا کہ کفار کو عذاب نہ دوں گا پھر باوجود اس بات کے کسی مصلحت کے لیے اپنے علم کے خلاف کہہ دیا کہ ان کو اپنے ہمیشہ کا عذاب دوں گا۔اس امر کا تجویز کرنا نہایت برا ہے۔(ایضاً)
اسی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے دور میں بھی یہ مسئلہ بڑے زوروں پر تھا امام اہل سنت قدس سرہ نے ان کا رد بلیغ فرمایا ،اورمسئلہ تقدیس پرکئی کتب ورسائل تحریر فرمائے جس میں سبحان السبوح عن عیب کذب مقبوح سر فہرست ہے۔ ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں : العظمۃ للہ اگر کذب الٰہی ممکن ہو تو اسلام پر وہ طعن لازم آئیں گے کہ اٹھائے نہ اٹھیں ، کافروں کو اعتراض ومقال اور عناد وجدال کی وہ مجالیں ملیں کہ مٹائے نہ مٹیں۔دلائل قرآن عظیم ووحی حکیم یک دست ہاتھ سے جائیں، حشر ونشر وحساب وکتاب ،جنت ونار، ثواب وعذاب کسی پر یقین کی کوئی راہ نہ پائیں ۔ کہ آخر ان امور پر ایمان صرف اخبار الٰہی سے ہے۔ جب معاذ اللہ کذب الٰہی ممکن ہو تو عقل کو ہر خبرِ الٰہی میں احتمال رہے گا۔شاید یونہی فرما دی ہو ،شاید ٹھیک نہ پڑے سبحانہ وتعالی عما یصفون( سبحان السبوح ص:17مطبوعہ لاہور)
رویت باری تعالیٰ: اہل سنت وجماعت کے مسلمات ومعتقدات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آخرت میں اہل ایمان اپنے رب کے جلوؤں سے ضرور مستفیض ہوں گے۔ جس کا اکبر اور اس کے حواریوں نے بہت تمسخر اڑایا( منتخب التواریخ ص 312)
امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ محمد سرہندی قدس سرہ نے اس کا رد بلیغ فرمایا چنانچہ فرماتے ہیں :آخرت میں ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ہونا حق ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے کہ اہل سنت وجماعت کے علاوہ مسلمانوں کے باقی فرقے ،حکماے فلاسفہ میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔ اس کے انکار کی وجہ غائب کو حاضر پر قیاس کرلینا جو بہر حال خلط فاسد ہے(مبدا ومعاد ص:71)
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ روافض معتزلہ رویت باری تعالیٰ کے منکر ہیں ،ایک شخص کہتا ہے وہ صحیح کہتے ہیں انہیں نہیں ہوگی۔ یہ کہنا کیسا؟
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا : مولی عزوجل ارشاد فرماتا ہے انا عند الظن عبدی بی روافض ومعتزلہ رویت الہی تعالیٰ سے مایوس ہیں مایوس ہی رہیں گے، وہابیہ کہ شفاعت کے منکر ہیں۔ محروم ہی رہیں گے۔ تو ان کا انکار ان کے اعتبار سے صحیح ہوا۔ ظاہراً قائل کی مراد یہی تھی کہ ان کی نفی ان کے حق میں سچی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ ہاں جو اس قول کی تصدیق بمعنی نفی مطلق کرے تو وہ ضرور گمراہ اور خارج از اہل سنت ہے(احکام شریعت ص:322)
عقیدہ حیات النبی: تمام امت مسلمہ کا مجمع علیہ عقیدہ ہے کہ اللہ وحدہ لا شریک کے برگزیدہ نبی، خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں بحیات حسی حقیقی زندہ و جاوید ہیں ،اور اللہ جل شانہ کی عطا کردہ نعمتوں سے اپنے غلاموں کو نوازتے ہیں۔ امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ نے اس مسئلہ کو بھی دلائل وبراہین کی روشنی میں خوب واضح کیاہے۔
فرماتے ہیں :آپ نے سنا ہوگا الانبیاء یصلّون فی قبورھم یعنی نبی اپنی قبروں میں نماز پڑھتے ہیں، اور ہمارے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام معراج کی رات جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر پر گزرے تو دیکھا کہ قبر میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ اور اسی وقت جب آسمان پہ پہنچے تو ان کو وہاں پایا اس مقام کے معاملات نہایت عجیب وغریب ہیں(مکتوب نمبر 16 دفتر دوم)
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : انبیاء کرام کی حیات حقیقی حسی دنیوی ہے۔ ان پر تصدیق وعدہ الٰہیہ کے لئے محض ایک آن کی آن موت طاری ہوتی ہے۔پھر ویسے ہی ان کو حیات عطا فرما دی جاتی ہے۔ اس حیات پر ویسے ہی احکام دینوی ہیں ،ان کا ترکہ بانٹا نہیں کیا جائے گا۔ ان کی ازواج پر نکاح حرام ہے، نیز ازواج مطہرات پر عدت نہیں۔ قبور میں نماز پڑھتے کھاتے پیتے ہیں۔( ملفوظات اعلیٰ حضرت ص 276 مطبوعہ لاہور)
اسی طرح اس عقیدہ کو اپنے اشعار میں بھی بیان فرمایا ہے۔
اَنبیا کو بھی اَجل آنی ہے
مگر ایسی کہ فقط آنی ہے
پھر اُسی آن کے بعد اُن کی حَیات مِثلِ سابِق وُہی جِسْمانی ہے
اُس کی اَزواج کو جائز ہے نِکاح
اُس کا تَرکہ بٹے جو فانی ہے
یہ ہیں حَیِّ اَبدی ان کو رضا
صِدقِ وعدہ کی قَضا مانی ہے
(حدائقِ بخشش،ص372مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
حضور حاضر وناظر ہیں: معتقدات اہل سنت میں سے ایک اہم عقیدہ یہ بھی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حاضر وناظر ہیں جیسا کہ خود قرآن پاک میں اللہ وحدہ نے آپ کو شاھد وشھید کے لقب سے یاد فرمایا مجدد الف ثانی رضی اللہ عنہ نے حدیث تنام عینی ولاینام قلبی کی تشریح میں حضور کے حاضر وناظر کی تائید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : نبی در رنگ شبان است در محافظت امت غفلت شایان منصب نبوت او نباشد یعنی نبی امت کا نگہبان ہوتا ہے اور غفلت اس کے منصب نبوت کے لائق نہیں( مکتوب 99 دفتر اول)
امام ربانی مجدد الف ثانی اور امام احمد رضا خان فاضل بریلوی قدسرہما کے یہ وہ چند نظریات و تعلیمات تھے۔ جن میں دونوں اماموں کے درمیان حد درجہ کی مماثلت ومشابہت پائی جاتی ہے۔ اللہ جل مجدہ ہمیں بھی تعلیمات مجددین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ سید المرسلین