تحریر : محمد اشرف رضا قادری
مدیر اعلیٰ سہ ماہی امین شریعت
بریلی شریف
مجددِ اسلام امام احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے خامۂ اعجاز رقم کا نمونہ منطق و فلسفہ میں بھی نظر آتا ہے ، جہاں انہوں نے فلسفہ و منطق کے بہت سارے خشک مضامین کو نعتیہ شاعری کا پیرہن عطا کیا ہے اور صنفِ نعت کے دامن کو نت نئے جہانِ معانی سے مالا مال کیا ہے ۔ اس مبارک صنف میں آپ کے علمی اصطلاحات سے آراستہ اشعار جہاں قارئین کو علمی جہان سے آشنا کرتے ہیں ، وہاں صفحۂ قرطاس کو بھی معطر و معنبر کرتے ہیں ۔ امام احمد رضا کے مرغِ تخیل نے فضائے نعت میں پرواز کرتے ہوئے انوکھی معنی آفرینی اور جدت و ندرت کی لہلہاتی فصل اگانے کے ساتھ منطق و فلسفہ کے قیمتی مباحث سے دنیائے شعر و ادب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔ ان فنون سے شغف رکھنے والے حضرات اشعار کی معنویت سے ضرور محظوظ ہوں گے ۔ اس تعلق سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :
پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفی کہ یوں
کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں
بے سہیم و قسیم و عدیل و مثیل
جوہرِ فردِ عزت پہ لاکھوں سلام
غایت و علت سبب بہر جہاں تم سب
تم سے بَنا ، تم بِنا تم پہ کروروں درود
وہ گراں سنگیِ قدرِ مِس وہ ارزانی جود
نوعیہ بدلا کیے سنگ و لآلی ہاتھ میں
ممکن میں یہ قدرت کہاں، واجب میں عبدیت کہاں
حیراں ہوں یہ بھی خطا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
یہ اشعار فلسفہ کے متنوع نظریات کے مظہر ہیں ۔ علمِ منطق کی اصطلاح پر یہ دو شعر دیکھیں :
تم سے خدا کا ظہور ، اس سے تمہارا ظہور
لم ہے وہ ان ہوا ، تم پہ کروڑوں درود
سببِ ہر سبب، منتہائے طلب
علتِ جملہ علت پہ لاکھوں سلام
ذرے مہرِ قدس تک تیرے توسط سے گئے
حدِ اوسط نے کیا صغریٰ کو کبریٰ نور کا
منطق و فلسفہ کے علاوہ علمِ نجوم و ہیئت و علمِ ہندسہ کی مصطلحات پر مشتمل کچھ اشعار دیکھتے جائیں : –
علمِ نجوم :
بارھویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا
بارہ برجوں سے جھکا اک اک ستارا نور کا
سعدین کا قِران ہے پہلوئے ماہ میں
جھرمٹ کیے ہیں تارے ، تجلی قمر کی ہے
دنیا ، مزار ، حشر ، جہاں ہیں غفور ہیں
ہر منزل اپنے چاند کی منزل غفر کی ہے
نبوی ظل، علوی برج، بتولی منزل
حسنی چاند، حسینی ہے اجالا تیرا
علمِ ہندسہ :
محیط و مرکز میں فرق مشکل، رہے نہ فاصل خطوطِ واصل
کمانیں حیرت میں سر جھکائے، عجیب چکر میں دائرے تھے
کیا لکیروں میں ید اللہ خط سروِ آسا لکھا
راہ یوں اس راز لکھنے کی نکالی ہاتھ میں
خاک ہو کر عشق میں آرام سے سونا ملا
جان کی اکسیر ہے الفت رسول اللہ کی
علمِ ہیئت :
مہر میزاں میں چھپا ہو تو حمل میں چمکے
ڈالے دو بوند شب دے میں جو بارانِ عرب
ہیں عکسِ چہرہ لبِ گلگوں کی سرخیاں
ڈوبا ہے بدرِ گل سے شفق میں ہلالِ گل
طلائے مہر ہے ٹکسال باہر
کہ خارج مرکزِ حامل ہے یا غوث
علمِ ارضیات پر مشتمل ایک معنی خیز شعر :
نبوی خور، علوی کوہ، بتولی معدن
حسنی لعل، حسینی ہے تجلا تیرا
جدید سائنس دانوں اور ماہرینِ ارضیات نے ہیرا اور کوئلہ کو ایک ہی فیملی کاربن کا ممبر بتایا ہے اور اس بات کی صراحت کی ہے کہ اگر کوئلہ کو ایک مخصوص مدت تک ایک مخصوص حرارت ملتی رہے تو کان کے اندر مختلف ری ایکشنز سے وہ بھی ہیرا بن سکتا ہے ۔ دامنِ کوہ میں جو ہیرا ملتا ہے ، وہ سورج کی حرارت اور اس کی توانائی سے ایک خاص ہیرے کی شکل حاصل کر لیتا ہے ، جسے ’’ لعل‘‘کہتے ہیں ۔ حضرت رضا بریلوی نے سرکار سیدنا غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ’’ حسنی لعل‘‘ کہا ہے تو ظاہر ہے یہ ہیرا علوی کوہ کے دامن میں موجود بتولی کان کا ہے اور اسے نبوی خورشید یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حرارت و توانائی ملی ہے ، کیوں کہ وہی ان کے جد اعلیٰ ہیں ۔ سرکار غوث پاک والد کی طرف سے حسنی اور والدہ کی طرف سے حسینی سید ہیں اور اس طرح یہ حضرت علی و حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی بھی اولاد ہیں اور ان سب کی اصل حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ حضرت رضا بریلوی نے مذکورہ بالا شعر میں علمِ ارضیات کی اصطلاح اور اس علم کی بنا پر بہت ہی خوبصورت شعر کہا ہے ، جس میں صداقت و بلاغت بھی ہے اور علمیت بھی ، معنیٰ آفرینی بھی ہے اور بلند خیالی بھی۔
( کلامِ رضا کے نئے تنقیدی زاویے ، ص : 25 )