تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
ضمیمہ میں قسط ہفتم کا نصف دوم ہے۔اس میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام کے بعض اقوال کی تشریح ہے،اوریہ بیان ہے کہ بتوں کا ذکر خیر قرآن وحدیث میں نہیں۔
قرآن وحدیث میں معبودان باطل کا ذکر خیر نہیں
قرآن مجید اوراحادیث طیبہ میں غیر مومن معبودان کفاریعنی لات، منات،عزی وہبل وغیرہ کا ذکر خیر نہیں،بلکہ ان بتوں کی عبادت کے قبائح ونقصان کابیان ہے۔منقولہ ذیل اقتباسات میں یہ صراحت ہے کہ مشرکین نے قصہ غرانیق کے دن کہا کہ آج سے پہلے کبھی بتوں کا ذکر خیر نہیں کیا گیا،نیز قصہ غرانیق بھی ثابت نہیں،پس ثابت ہواکہ بتوں کا ذکر خیر کبھی نہیں ہوا۔کسی ضرورت کے سبب بلا تعظیم بتوں کا ذکر ہو سکتا ہے۔تعظیم وتوقیر اور مدحت و ستائش کی اجازت نہیں، کیوں کہ اس سے کفار کے دلوں میں کفر مزید مستحکم وقوی ہوجائے گا۔ نیز بتوں کی تعظیم علامت کفر ہے۔
(1)امام جلال الدین سیوطی شافعی نے رقم فرمایا:(وأخرج ابن جریر وابن المنذر وابن أبی حاتم وابن مردویہ بسند صحیح عن سعید بن جبیر قال:
قرأ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بمکۃ النجم-فلما بلغ ہذا الموضع(أفرأیتم اللات والعزی ومناۃ الثالثۃ الأخری)ألقی الشیطان علی لسانہ(تلک الغرانیق العلی وإن شفاعتہن لترتجی)قالوا:ما ذکر آلہتنا بخیر قبل الیوم فسجد وسجدوا)(الدر المنثور جلدششم:ص65-مکتبہ شاملہ)
(2)ابن کثیردمشقی (774-701ھ)نے لکھا:(قد ذکر کثیر من المفسرین ہہنا قصۃ الغرانیق-وما کان من رجوع کثیر من المہاجرۃ إلی أرض الحبشۃ ظناً منہم أن مشرکی قریش قد أسلموا-ولکنہا من طرق کلہا مرسلۃ-ولم أرہا مسندۃ من وجہ صحیح-واللّٰہ أعلم۔
قال ابن أبی حاتم:حدثنا یونس بن حبیب حدثنا أبوداود حدثنا شعبۃ عن أبی بشر عن سعید بن جبیر قال:قرأ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بمکۃ النجم-فلما بلغ ہذا الموضع(أَ فَرَأَیْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّی وَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْأُخْرَی) قال:فألقی الشیطان علی لسانہ(تلک الغرانیق العلی وأن شفاعتہن ترتجی)قالوا:ما ذکر آلہتنا بخیر قبل الیوم فسجد وسجدوا۔
فأنزل اللّٰہ عز وجل ہذہ الآیۃ(وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رّسُولٍ وَلاَ نَبِیّ إِلاّ إِذَا تَمَنّیَ أَلْقَی الشّیْطَانُ فِیَ أُمْنِیّتِہِ فَیَنسَخُ اللّہُ مَا یُلْقِی الشّیْطَانُ ثُمّ یُحْکِمُ اللّہُ آیَاتِہِ وَاللّہُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ)(تفسیرابن کثیر:سورۃ الحج:جلد3ص280-مکتبہ شاملہ)
(3)شہاب الدین آلوسی بغدادی (1270-1217ھ)نے لکھا:
(ففی الدر المنثور:أخرج ابن جریر وابن المنذر وابن أبی حاتم بسند صحیح عن سعید بن جبیر قال:قرأ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بمکۃ النجم فلما بلغ(أفرأیتم اللات والعزی ومناۃ الثالثۃ الأخری)ألقی الشیطان علی لسانہ(تلک الغرانیق العلا وإن شفاعتہن لترتجی)قالوا:ما ذکر آلہتنا بخیر قبل الیوم فسجد وسجدوا)
(تفسیر روح المعانی:جلد17-ص177-مکتبہ شاملہ)
(4)محدث بدرالدین عینی حنفی نے رقم فرمایا:(وأحسن من ہذا أیضا ما قالہ بعضہم:کان النبی یرتل القرآن فارتصدہ الشیطان فی سکتۃ من السکتات ونطق بتلک الکلمات محاکیا نغمتہ بحیث سمعہ من دنا إلیہ فظنہا من قولہ وأشاعہا-قلت:تلک الکلمات ہی ما أخرجہ ابن أبی حاتم والطبری وابن المنذر من طرق عن شعبۃ عن أبی بشر عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال:قرأ رسول اللّٰہ بمکۃ النجم فلما بلغ(أ فرأیتم اللات والعزی ومناۃ الثالثۃ الأخری)(النجم:19)ألقی الشیطان علٰی لسانہ(تلک الغرانیق العلی وإن شفاعتہن لترتجی)
فقال المشرکون:ما ذکر آلہتنا بخیر قبل الیوم-فسجد وسجدوا فنزلت ہذہ الآیۃ-وروی ہذا أیضا من طرق کثیرۃ۔
وقال ابن العربی:ذکر الطبری فی ذلک روایات کثیرۃ باطلۃ،لا أصل لہا وقال عیاض:ہذا الحدیث لم یخرجہ أحد من أہل الصحۃ ولا رواہ ثقۃ بسند سلیم متصل مع ضعف نقلتہ واضطراب روایاتہ وانقطاع إسنادہ-وکذا من تکلم بہذہ القصۃ من التابعین والمفسرین لم یسندہا أحد منہم ولا رفعہا إلی صاحبہ-وأکثر الطرق عنہم فی ذلک ضعیفۃ۔
وقال بعضہم:ہذا الذی ذکرہ ابن العربی وعیاض لا یمضی علی القواعد فإن الطرق إذا کثرت وتباینت مخارجہا دل ذلک علی أن لہا أصلا انتہی)(عمدۃ القاری شرح البخاری: تفسیرسورۃ الحج:جلد 28ص18- مکتبہ شاملہ)
(5)امام ابن حجر عسقلانی شافعی نے رقم فرمایا: (وَعَلٰی تَأْوِیل اِبْن عَبَّاس ہَذَا یُحْمَل مَا جَاءَ عَنْ سَعِید بْن جُبَیْر،وَقَدْ أَخْرَجَ اِبْن أَبِی حَاتِم وَالطَّبَرِیُّ وَابْن الْمُنْذِر مِنْ طُرُق عَنْ شُعْبَۃ عَنْ أَبِی بِشْر عَنْہُ قَالَ:”قَرَأَ رَسُول اللَّہ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ بِمَکَّۃَ وَالنَّجْم،فَلَمَّا بَلَغَ(أَفَرَأَیْتُمْ اللَّاتَ وَالْعُزَّی وَمَنَاۃ الثَّالِثَۃ الْأُخْرَی) أَلْقَی الشَّیْطَان عَلَی لِسَانہ:”تِلْکَ الْغَرَانِیقُ الْعُلَی وَإِنَّ شَفَاعَتہنَّ لَتُرْتَجَی“ -فَقَالَ الْمُشْرِکُونَ:مَا ذَکَرَ آلِہَتَنَا بِخَیْرٍ قَبْلَ الْیَوْم، فَسَجَدَ وَسَجَدُوا)(فتح الباری شر ح البخاری:ج13ص242-مکتبہ شاملہ)
توضیح:منقولہ بالا پانچوں اقتباسات میں ہے کہ مشرکین نے قصہ غرانیق کے دن کہا کہ آج سے پہلے کبھی بھی حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمارے بتوں کا ذکر خیر نہیں کیا۔اس سے واضح ہوگیا کہ مکہ معظمہ میں بھی حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کبھی بتوں کا ذکر خیر نہیں فرمایا، حالاں کہ اس وقت مشرکین مکہ مسلمانوں پرظلم وستم ڈھاتے تھے۔بتوں کی تعریف ومدح سرائی بھی اس کی تعظیم ہے اور معبودان باطل کی تعظیم کفر ہے۔
منقولہ بالا روایتوں میں (فألقی الشیطان علی لسانہ)سے مراد یہ ہے کہ شیطان نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آوازمبارک سے مشابہ آواز میں بتوں کی تعریف پر مشتمل جملہ کہا۔ ایسا نہیں کہ شیطان کسی نبی علیہ السلام کی زبان مبارک سے کوئی غلط بات کہلوا دے۔
حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃوالسلام پر شیطان کو قابونہیں۔
رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:(ان عبادی لیس لک علیہم سلطان الا من اتبعک من الغاوین)(سورہ حجر:آیت 42)
ترجمہ:بے شک میرے بندوں پر تیراکچھ قابو نہیں،سوائے ان گمرہوں کے جو تیرے پیچھے چلیں۔(کنز الایمان)
دراصل قصہ غرانیق کی قوی روایت موجودنہیں۔ہم نے اس سے صرف یہ بتانا چاہا کہ ان روایتوں میں یہ مذکور ہے کہ آج سے پہلے کبھی بھی بتوں کا ذکر خیر نہیں کیا گیا اور کسی بھی مفسر ومحدث نے اس امر کا انکار نہیں کیا،پس ثابت ہوگیا کہ مکہ مقدسہ میں بھی اصنام واوثان کی مدح وستائش نہیں کی گئی،حالاں کہ مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے۔
اصنام واوثان کی مذمت سے ممانعت
معبودان باطل کے سب وشتم سے بھی مومنین کومنع فرمایا گیا،تاکہ کفار ومشرکین جذبہ انتقام میں اللہ تعالیٰ کی شان اقدس میں بے ادبی نہ کریں۔معبودان باطل کی نہ مدحت کرنی ہے،نہ مذمت۔ دونوں کے اسباب واحکام جدا گانہ ہیں۔سب وشتم نہ کرنے کا مفہوم یہ نہیں کہ بتوں کی تعریف وتوصیف کی جائے۔جب مکی عہدمیں تعریف وتوصیف کی اجازت نہ ہوئی،جب کہ مشرکین سخت ظلم وستم کرتے تھے تو بعد میں اجازت کیسے ہوسکتی ہے۔
ارشاد الٰہی ہے:(ولا تسبوا الذین یدعون من دون اللّٰہ فیسبوا اللّٰہ عَدْوًا بغیر علم)(سورہ انعام:آیت 108)
ترجمہ:اور انہیں برا نہ کہو جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ زیادتی کرتے ہوئے جہالت کے سبب اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے۔(کنزالایمان)
امام محی السنہ بغوی (510-436ھ)نے تحریرفرمایا:(قولہ عز وجل:(وَلا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ) الآیۃ-قال ابن عباس:لما نزلت (إنکم وما تعبدون من دون اللّٰہ حصب جہنم) (الأنبیاء:98)
قال المشرکون:یا محمد لتنتہین عن سب آلہتنا أو لنہجون ربک، فنہاہم اللّٰہ تعالی أن یسبوا أوثانہم.
وقال قتادۃ:کان المسلمون یسبون أصنام الکفار،فنہاہم اللّٰہ عز وجل عن ذلک،لئلا یسبوا اللّٰہ فإنہم قوم جہلۃ)
(تفسیر بغوی:سورۃ الانعام:جلد سوم:ص 176-مکتبہ شاملہ)
تر جمہ:ارشاد الٰہی (ولا تسبوا:الاٰیہ)۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب آیت طیبہ (انکم وما تعبدون:الاٰیہ)نازل ہوئی تو مشرکین نے کہا: اے ابن عبداللہ! (ﷺ)آپ ضرور ہمارے بتوں کو برا کہنے سے باز آجائیں،ورنہ ہم آپ کے رب کی برائی بیان کریں گے،پس اللہ تعالیٰ نے مسلمانو ں کو بتوں کوبرا کہنے سے منع فرما دیا۔
حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مومنین بتوں کوبرا کہتے تھے، پس اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے منع فر مادیا، تاکہ مشرکین اللہ تعالیٰ کی بے ادبی نہ کریں،کیوں کہ وہ جاہل لوگ تھے۔
امام محی السنہ بغوی (510-436ھ)نے رقم فرمایا:(وقال السدی:لما حضرت أبا طالب الوفاۃ قالت قریش:انطلقوا فلندخل علی ہذا الرجل فلنأمرنہ أن ینہی عنا ابن أخیہ فإنا نستحی أن نقتلہ بعد موتہ،فتقول العرب:کان یمنعہ عمہ فلما مات قتلوہ۔
فانطلق أبو سفیان وأبو جہل والنضر بن الحارث وأمیۃ وأُبیّ ابنا خلف وعقبۃ بن أبی معیط وعمرو بن العاص،والأسود بن البختری إلی أبی طالب،فقالوا: یا أبا طالب أنت کبیرنا وسیدنا وإن محمدا قد آذانا وآلہتنا، فنحب أن تدعوہ فتنہاہ عن ذکر آلہتنا، ولندعنہ وإلہہ۔
فدعاہ فقال:ہؤلاء قومک یقولون نرید أن تدعنا وآلہتنا وندعک وإلہک،فقد أنصفک قومک فاقبل منہم،فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم:”أ رأیتم إن أعطیتکم ہذا ہل أنتم معطی کلمۃ إن تکلمتم بہا ملکتم العرب ودانت لکم بہا العجم؟“-قال أبو جہل:نعم وأبیک لنعطینکہا وعشرۃ أمثالہا،فما ہی؟ قال:”قولوا لا إلہ إلا اللہ“-فأبوا ونفروا۔
فقال أبو طالب:قل غیرہا یا ابن أخی، فقال:یا عم! ما أنا بالذی أقول غیرہا ولو أتونی بالشمس فوضعوہا فی یدی،فقالوا:لتکفن عن شتمک آلہتنا أو لنشتمنک ولنشتمن من یأمرک۔
فأنزل اللّٰہ عز وجل:(وَلا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ)یعنی الأوثان(فَیَسُبُّوا اللَّہَ عَدْوًا)أی:اعتداء وظلما(بِغَیْرِ عِلْمٍ)
وقرأ یعقوب”عدوا“بضم العین والدال وتشدید الواو،فلما نزلت ہذہ الآیۃ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لأصحابہ:
”لا تسبوا ربکم“-فأمسک المسلمون عن سب آلہتہم.
فظاہر الآیۃ،وإن کان نہیا عن سب الأصنام،فحقیقتہ النہی عن سب اللّٰہ،لأنہ سبب لذلک)(تفسیر بغوی:سورۃ الانعام:جلد سوم:ص 176-مکتبہ شاملہ)
توضیح: منقولہ بالا اقتباس میں ہے کہ عہد مکی میں بھی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بتوں کو برا کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں منع فرمادیا،کیوں کہ مشرکین نے کہا کہ اگر مومنین ہمارے اصنام واوثان کی تقبیح سے باز نہ آئے تو ہم مسلمانوں کے معبود پر زبان دراز کریں گے۔اللہ تعالیٰ نے منقوشہ بالا آیت مقدسہ نازل فرمائی۔
اس کے بعد حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کوبتوں کی تقبیح سے منع فرما دیا۔ چوں کہ بتوں کی تقبیح کے سبب مشرکین اللہ تعالیٰ کی شان اقدس میں بدگوئی کا ارادہ ظاہر کررہے تھے،اس لیے بتوں کی مذمت وتقبیح سے ممانعت دراصل معبودحقیقی کی شان اقدس کے تحفظ کے واسطے تھا۔ارشاد نبوی (لا تسبوا ربکم) کا یہی مفہوم ہے کہ بتوں کی مذمت کرنے پر مشرکین اللہ تعالیٰ کی شان اقدس میں زبان درازی کریں گے،اور بتوں کی مذمت اس کا سبب ہے،پس اس سبب کو اختیار نہ کرو۔
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اقوال
(۱)قول اول:(بل فعلہ کبیرہم)
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام نے مشرکین کے بتوں کو توڑ دیا،بڑے بت کو چھوڑ دیا،اور اس کے کاندھے پربسولا رکھ دیا جس سے آپ نے بت توڑا تھا۔جب ان کی قوم نے بتوں کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایاکہ بتوں سے پوچھو۔
(قالوا أ انت فعلت ہذا بالہتنا یا ابراہیم::قال بل فعلہ کبیرہم ہذا فسئلوہم ان کانوا ینطقون)(سورہ انبیا ء:آیت63-62)
ترجمہ:بولے کیا تم نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ کام کیا اے ابراہم؟فرمایا:بلکہ ان کے اس بڑے نے کیا ہوگا تو ان سے پوچھواگر بولتے ہوں۔(کنز الایمان)
آیت مقدسہ کی متعددتاویل ہے۔بعض تاویل کے اعتبار سے ”بل فعلہ کبیرہم: الاٰیہ“میں توریہ ہے،اوربعض تاویل کے اعتبارسے اس میں تعریض ہے۔
آیت طیبہ کی ایک تاویل ہے کہ ”کبیرہم“کا ایک معنی یہ ہے کہ بڑے بت نے توڑا ہے۔ اس کاایک معنی یہ ہے کہ ان سے بڑے نے توڑا ہے۔ ”کبیر“ سے آپ نے اپنی ذات مراد لی ہے۔یہ معنی بعید ہے۔ آپ نے بڑے بت کی طرف اسناد کا ایہام فرمایا، تاکہ ان کی قوم خود کہے کہ یہ بت تو کچھ کرہی نہیں سکتے،پھر آپ ان کے خلاف حجت قائم کریں کہ جب یہ بت کچھ کرہی نہیں سکتے تو پھر ان کوپوجنے سے کیا فائدہ؟
امام فخرالدین رازی نے رقم فرمایا:(وخامسہا:أنہ یجوز أن یکون فیہ وقف عند قولہ کبیرہم-ثم یبتدیء فیقول:”ہذا فاسألوہم“والمعنی بل فعلہ کبیرہم وعنی نفسہ لأن الإنسان أکبر من کل صنم)
(تفسیر کبیر:سورۃ الانبیاء:جلد22:ص160-مکتبہ شاملہ)
ترجمہ:پانچویں تاویل یہ ہے کہ جائز ہے کہ آیت طیبہ میں قول ابراہیمی (کبیرہم)پر وقف ہو،پھر نیاقول شروع ہو،اور کہے:یہ بات ان بتوں سے پوچھو،اور معنی ہے کہ:بلکہ ان سے بڑے نے کیا ہے، اوراپنی ذات کو مراد لیے،اس لیے کہ انسان ہر بت سے بڑا ہے۔
توضیح:کبیرہم سے حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنی ذات مرادلی،کیوں کہ انسان ہربت سے افضل اور بلندرتبہ ہے۔ مذکورہ تاویل کے اعتبارسے اس کلام میں توریہ ہے۔اس کلام میں تعریض کی صورت درج ذیل ہے۔
امام جلال الدین سیوطی شافعی نے رقم فرمایا:(أما التعریض:فہو لفظ أستعمل فی معناہ للتلویح بغیرہ نحو:(بَلْ فَعَلَہُ کَبِیرُہُمْ ہَذَا)نسب الفعل إلی کبیر الأصنام المتخذۃ آلہۃ کأنہ غضب أن تعبد الصغار معہ،تلویحا لعابدہا بأنہا لا تصلح أن تکون آلہۃ لما یعلمون إذا نظروا بعقولہم من عجز کبیرہا عن ذلک الفعل والإلہ لا یکون عاجزا)
(الاتقان فی علوم القرآن:النوع الرابع والخمسون:جلدسوم:ص165-مکتبہ شاملہ)
ترجمہ:لیکن تعریض،پس وہ ایسا لفظ ہے جو اپنے معنی میں استعمال کیا گیا ہو، اپنے مغایر معنی کی جانب اشارہ کے لیے،جیسے (بلکہ ان کے اس بڑے نے کیا)فعل کی نسبت بتوں میں سے بڑے بت کی طرف فرمائی جو معبو د بنالیے گئے تھے،گویا بڑا بت ناراض ہوا کہ اس کے ساتھ چھوٹے بت پوجے جائیں،اس کے پجاری کو اس جانب اشارہ کے واسطے کہ یہ سب معبودہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے، کیوں کہ جب وہ اپنی عقلوں سے غورکریں گے تو بڑے بت کا اس فعل سے عاجز ہونا جان لیں گے، اور عاجز وغیرقادر معبود نہیں ہوتا۔
(۲)قول دوم:(ہذاربی)
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام کی قوم ستاروں کوپوجتی تھی۔ شمس وقمر وسیارگان، شجر وحجر وبحروانسان، اصنا م واوثان،اورنہ جانے کتنوں کو لوگوں نے معبود بنا لیا ہے۔
امام فخرالدین رازی نے رقم فرمایا:(واعلم أن الضمیر فی قولہ(مَا نَعْبُدُہُمْ إِلاَّ لِیُقَرّبُونَا إِلَی اللَّہِ زُلْفَی)عائد علی الأشیاء التی عبدت من دون اللّٰہ-و ہی قسمان:العقلاء وغیر العقلاء-أما العقلاء فہو أن قوماً عبدوا المسیح وعزیرًا والملائکۃ-وکثیر من الناس یعبدون الشمس والقمر والنجوم ویعتقدون فیہا أنہا أحیاء عاقلۃ ناطقۃ-وأما الأشیاء التی عبدت مع أنہا لیست موصوفۃ بالحیاۃ والعقل فہی الأصنام)
(تفسیر کبیر:سورۃ الزمر:جلد 26:ص210-مکتبہ شاملہ)
ترجمہ: جان لوکہ ارشاد الٰہی (ما نعبدہم:الاٰیہ)کی ضمیر ان اشیاکی جانب لوٹتی ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ جن کومعبودبنالیا گیا،اوراس کی دوقسمیں ہیں۔ اصحاب عقل اور بے عقل، لیکن اصحاب عقل،پس انسانوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت عزیر علیہ السلام اور فرشتوں کومعبودبنالیا، اوربہت سے لوگ سورج، چاند اور ستاروں کی عبادت کرتے ہیں،اور ان کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ زندہ،صاحب عقل اوربولنے والے ہیں،لیکن وہ اشیاجو معبود بنالی گئی ہیں، باوجودے کہ وہ حیات وعقل سے متصف نہیں تووہ بت ہیں۔
مفسر ابن عادل حنبلی نے رقم فرمایا:(ہم الکلدانیون الذین جاۂم ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام رَدًّا علیہم ومبطلًا لقولہم،وکانوا یعبدون الکواکب)
(اللباب فی علوم الکتاب:سورۃ البقرہ:جلددوم:ص136-مکتبہ شاملہ)
ترجمہ: وہ قبیلہ کلدان کے لوگ ہیں جن کے درمیان حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلا م ان کے عقیدہ کے بطلان اور ان کے رد کے لیے جلوہ گرہ ہوئے۔ وہ لوگ ستاروں کو پوجتے تھے۔
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام جس قوم کی جانب مبعوث ہوئے تھے،اس قوم کا نام ”کلدان“تھا۔یہ لوگ ستاروں کوپوجتے تھے اورستاروں کے بت بناکر ان بتوں کو بھی پوجتے تھے۔ بت پر ست اقوام عام طورپر متعدد مخلوقات کی پرستش کرتی تھیں۔
خلیل کبریا حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنی قوم کوطویل مدت تک توحید کی دعوت دیتے رہے۔ مختلف اسلوب میں انہیں راہ حق کی ترغیب فرماتے رہے۔ایک موقع پر آپ نے ان کے بتوں کوبھی توڑ دیا۔ مناظراتی اسلوب میں بھی دعوت توحید پیش فرمائی۔
ارشاد الٰہی ہے:(وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ لأَبِیہِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِہَۃً إِنِّی أَرَاکَ وَقَوْمَکَ فِی ضَلاَلٍ مُّبِینٍ::وَکَذَلِکَ نُرِی إِبْرَاہِیمَ مَلَکُوتَ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ وَلِیَکُونَ مِنَ الْمُوقِنِینَ::فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ اللَّیْلُ رَأَی کَوْکَبًا قَالَ ہَذَا رَبِّی فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِینَ::فَلَمَّا رَأَی الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہَذَا رَبِّی فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَءِنْ لَّمْ یَہْدِنِی رَبِّی لَأَکُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّینَ::فَلَمَّا رَأَی الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ہَذَا رَبِّی ہَذَا أَکْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ یَا قَوْمِ إِنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ::إِنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ)(سورہ انعام:آیت79-74)
ترجمہ: اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا:کیاتم بتوں کوخدا بناتے ہو،بے شک میں تمہیں اور تمہاری قوم کوکھلی گمراہی میں پاتا ہوں۔اوراسی طرح ہم ابراہیم کو دکھاتے ہیں ساری بادشاہی آسمانوں اور زمین کی، اوراس لیے کہ وہ عین الیقین والوں میں ہو جائے۔پھر جب ان پررات کا اندھیرا آیا،ایک تارہ دیکھا،بولے، اسے میرا رب ٹھہراتے ہو، پھر جب وہ ڈوب گیا،بولے،مجھے خوش نہیں آتے ڈوبنے والے۔
پھر جب چاندچمکتا دیکھا، بولے،اسے میرا رب بتاتے ہو، پھر جب وہ ڈوب گیا، کہا:اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں بھی انہیں گمرہوں میں ہوتا۔پھر جب سورج جگمگاتا دیکھا،بولے،اسے میرا رب کہتے ہو، یہ تو ان سب سے بڑا ہے، پھر جب وہ ڈوب گیا،کہا:اے قوم! میں بے زار ہوں ان چیزوں سے جنہیں تم شریک ٹھہراتے ہو۔ میں نے اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان وزمین بنائے،ایک اسی کا ہوکر، اور میں مشرکوں میں نہیں۔(کنز الایمان)
حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ایک بار ستارہ،چاند اورسورج کو دیکھ کر فرمایا: (ہذا ربی)،جب وہ غروب ہوجاتا تو فرماتے کہ میں ڈوبنے والوں کوپسند نہیں کرتا۔
مفسرین نے ا س کی متعدد تاویلات رقم فرمائی ہیں۔چند تاویلات درج ذیل ہیں۔
(1)امام فخر الدین رازی شافعی نے رقم فرمایا:(اکثر المفسرین قالوا فی تفسیر قول ابراہیم(ہذا ربی)انہ ذکر ہذا استفہامًا علٰی سبیل الانکار، کأنہ قال:أ ہذا ربی)(تفسیر کبیر:سورۃ النساء:جلد 10ص 153-مکتبہ شاملہ)
ترجمہ:حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام کے قول (ہذا ربی)کے بارے میں اکثر مفسرین نے کہا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃو السلام نے انکارکے واسطے سوالیہ اسلوب میں اس قول کا ذکرفرمایا،گویا کہ انہوں نے فرمایا:کیا یہی میرارب ہے؟
(2)مفسر ابوحیان اندلسی (745-654ھ)نے رقم فرمایا:(وألف الاستفہام محذوفۃ من الکلام کقولہ:(وَتِلْکَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَیَّ)أی:أ وتلک نعمۃ-وکذا(بَازِغاً قَالَ ہذا رَبّی)علی أحد الأقوال-والعرب تحذف ألف الاستفہام)(البحر المحیط:سورہ نساء:جلدسوم:ص313-مکتبہ شاملہ)
ترجمہ:کلام سے الف استفہام محذوف ہے، جیسا کہ ارشاد الٰہی (اوروہ نعمت ہے جس کا تم مجھ پر احسان جتاتے ہو) ہے،یعنی (اورکیا وہ نعمت ہے؟)اسی طرح ایک قول کے مطا بق ارشاد الٰہی (ہذاربی) ہے، اوراہل عرب الف استفہام کو حذف کردیتے ہیں۔
توضیح: اہل عرب اپنے کلام میں ہمزۂ استفہام کوحذف کر دیتے ہیں۔قرینہ حالیہ یاقرینہ مقالیہ متعین کردیتا ہے کہ کلام سے حرف استفہام محذوف ہے۔
(3)مفسر ابن عادل دمشقی حنبلی نے رقم فرمایا:(قال أکثر المُفَسِّرین فی قَوْل إبْراہیم علیہ السلام:(ہذا رَبِّی)إنہ ذَکَر ہذا اسْتِفْہَاماً علٰی سَبِیل الإنْکَارِ)
(اللباب فی علوم الکتاب:سورۃ النساء:جلدششم:ص514-مکتبہ شاملہ)
ترجمہ:حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام کے قول (ہذا ربی)کے بارے میں اکثر مفسرین نے کہا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃو السلام نے انکارکے واسطے سوالیہ اسلوب میں اس قول کا ذکرفرمایا۔(یعنی:کیا یہی میرارب ہے؟جیسا کہ تم لوگ کہتے ہو)
(4)امام بیضاوی نے رقم فرمایا:(وقولہ:(ہذاربی)علٰی سبیل الوضع-فان المستدل علٰی فساد قول یحکیہ علٰی ما یقولہ الخصم-ثم ینکر علیہ بالافساد)(تفسیر بیضاوی:سورۃ الانعام:جلددوم:ص 423-مکتبہ شاملہ)
ترجمہ:حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃوالسلام کا قول (ہذا ربی) نقل کے طورپر ہے، اس لیے کہ کسی قول کے فسادوبطلان پر استدلال کرنے والا اس قول کو ویسا ہی نقل کرتا ہے، جیسا کہ خصم کہتا ہے، پھر فساد ظاہر کرکے اس قول کاانکار کرتا ہے۔
(5)امام فخرالدین رازی نے رقم فرمایا:(أما إذا قلنا المقصود منہا إلزام القوم وإلجاؤہم فہذا السؤال غیر وارد لأنہ یمکن أن یقال أنہ إنما اتفقت مکالمتہ مع القوم حال طلوع ذلک النجم ثم امتدت المناظرۃ إلی أن طلع القمر وطلعت الشمس بعدہ-وعلی ہذا التقدیر فالسؤال غیر وارد فثبت بہذہ الدلائل الظاہرۃ أنہ لا یجوز أن یقال إن إبراہیم علیہ السلام قال علی سبیل الجزم(ہذا ربی)وإذا بطل ہذا،بقی ہہنا احتمالان۔
الأول:أن یقال ہذا کلام إبراہیم علیہ السلام بعد البلوغ-ولکن لیس الغرض منہ إثبات ربوبیۃ الکوکب،بل الغرض منہ أحد أمور سبعۃ۔
الأول أن یقال إن إبراہیم علیہ السلام لم یقل(ہذا ربی)علی سبیل الأخبار بل الغرض منہ أنہ کان یناظر عبدۃ الکوکب وکان مذہبہم أن الکوکب ربہم وآلہہم فذکر إبراہیم علیہ السلام ذلک القول الذی قالوہ بلفظہم وعبارتہم حتی یرجع إلیہ فیبطلہ۔
ومثالہ أن الواحد منا إذا ناظر من یقول بقدم الجسم فیقول(الجسم قدیم)فإذا کان کذلک فلم نراہ ونشاہدہ مرکباً متغیراً فہو إنما قال (الجسم قدیم)إعادۃ لکلام الخصم حتی یلزم المحال علیہ-فکذا ہہنا قال(ہذَا رَبّی)والمقصود منہ حکایۃ قول الخصم ثم ذکر عقیبہ ما یدل علی فسادہ وہو قولہ(لا أُحِبُّ الاْفِلِینَ)وہذا الوجہ ہو المعتمد فی الجواب-والدلیل علیہ أنہ تعالی دل فی أول الآیۃ علٰی ہذہ المناظرۃ بقولہ تعالی(وَتِلْکَ حُجَّتُنَا أٰتَیْنَاہَا إِبْراہِیمَ عَلَی قَوْمِہِ)
والوجہ الثانی فی التأویل أن نقول قولہ(ہذَا رَبّی)معناہ ہذا ربی فی زعمکم واعتقادکم-ونظیرہ أن یقول الموحد للمجسم علٰی سبیل الاستہزاء(أن إلہہ جسم محدود)أی فی زعمہ واعتقادہ۔
قال تعالی:(وَانظُرْ إِلَی إِلٰہِکَ الَّذِی ظَلْتَ عَلَیْہِ عَاکِفاً(طہ:97)وقال تعالی:(وَیَوْمَ یُنَادِیہِمْ فَیَقُولُ أَیْنَ شُرَکَاءِی) (القصص:62)وکان صلوات اللّٰہ تعالی علیہ یقول:(یا إلہ الآلہۃ)والمراد أنہ تعالی إلہ الآلہۃ فی زعمہم -وقال(ذُقْ إِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیزُ الْکَرِیمُ)(الدخان 49)أی عند نفسک۔
والوجہ الثالث فی الجواب أن المراد منہ الاستفہام علٰی سبیل الإنکار-إلا أنہ أسقط حرف الاستفہام استغناء عنہ لدلالۃ الکلام علیہ۔
والوجہ الرابع أن یکون القول مضمرًا فیہ-والتقدیر:(قال یقولون ہذا ربی)وإضمار القول کثیر کقولہ تعالی:(وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْراہِیمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَإِسْمَاعِیلُ رَبَّنَا(البقرۃ:127) أی یقولون ربنا-وقولہ:(وَالَّذِینَ اتَّخَذُواْ مِن دُونِہِ أَوْلِیَاء مَا نَعْبُدُہُمْ إِلَی لِیُقَرّبُونَا إِلَی اللَّہِ زُلْفَی)(الزمر:3)أی یقولون ما نعبدہم،فکذا ہہنا التقدیرإن إبراہیم علیہ السلام قال لقومہ (یقولون ہذا ربی)أی ہذا ہو الذی یدبرنی ویربینی۔
والوجہ الخامس أن یکون إبراہیم ذکر ہذا الکلام علٰی سبیل الاستہزاء کما یقال لذلیل ساد قوماً”ہذا سیدکم“علٰی سبیل الاستہزاء)
(تفسیر کبیر:سورۃ الانعام:جلد13:ص41-مکتبہ شاملہ)
توضیٖح:امام رازی نے سات تاویل بیان فرمائی ہے۔ یہاں پانچ تاویل نقل کی گئی ہے۔
متعلقہ سوالوں کے جوابات
سوال: بعض اہل علم نے قوم ہنود کے معبودان باطل کے مسلمان اور ولی ونبی ہونے کا خیال ظاہر کیا۔ یہ بھی تعظیم ہے،پھر ان لوگوں کا کیا حکم ہے؟
جواب:بعض اہل علم کو معبودان ہنود کے بارے میں جو روایات وحکایات موصول ہوئیں، ان کے پیش نظر ان حضرات نے اپنا عندیہ پیش کیا۔ تعظیم کے طورپر مسلمان یا ولی نہیں کہا گیا،بلکہ روایات وحکایات سے ایک نتیجہ اخذکر نے کی کوشش تھی۔چوں کہ ہنود کے بیان کردہ روایات وحکایات سے ان کا غیرصالح وغیرمتقی ہونا بھی ثابت ہے،لہٰذا ایسے نتائج ناقابل قبول ہوں گے، اور محض خیال ظاہر کرنے پر شرعی حکم وارد نہیں ہوگا۔
سوال:بعض لوگ یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ رام چند ر موحد ہوسکتا ہے؟
جواب:(1)رام چندرایک فرضی کردارہے۔اس کا وجود تاریخی روایات سے ثابت نہیں۔رام اگر فرضی شخص کا نام ہے تو وہ محض معبود کفار ہے،اور معبودان کفار کی تعظیم و توقیر کفر ہے۔اگر وہ حقیقی شخص ہے تو قوم ہنودکی روایات وحکایات سے اس کا سناتن دھرمی اورمشرک ہونا ثابت ہے۔انہیں روایات وحکایات سے فسق وفجور بھی ثابت ہے۔
(2)(الف)رام کو اگر عہد ماضی کا ایک حقیقی آدمی مانا جائے تو وہ راجہ دسرتھ کا بیٹا ہے، اور راجپوتوں کی سب سے اعلی نسل راج بنسی قبیلے کا ایک فرد ہے۔رام سے پہلے بھی اور رام کے بعد بھی راج بنسی خاندان کے لوگ سورج کو پوجتے تھے،پس یہ واضح قرینہ ہے کہ اپنے آبا واجداد کے مذہب کے مطابق رام بھی سورج کا پجاری اور مشرک ہو گا۔سورج پرستی ویدک دھرم کا حصہ ہے۔ ویدک دھرم والے طلوع وغروب کے وقت سورج کوپوجتے ہیں۔
(ب)قوم ہنود کے درمیان یہ روایت بہت مشہور ہے کہ رام چندرنے ”سمبوکا“ نامی ایک شودر کو صرف اس لیے قتل کردیا تھا کہ وہ عبادت وریاضت میں مشغول ہوگیا تھا،جب کہ ویدک دھرم میں صرف دوہرے جنم والوں یعنی صرف آریوں کو عبادت وریاضت کا حق ہے اور شودروں کو دو جنم والوں کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔
جب رام چند ر ویدک دھرم کے طریقے پر عمل پیرا ہے تو اسے بھی وید ک دھرم کا پیروکار مانا جائے گا۔کسی بھی توحیدی مذہب میں عبادت وریاضت کا حق کسی نسل کے ساتھ مخصوص نہیں۔محض ویدک دھرم میں یہ قانون ہے۔چوں کہ یہ روایت ہنود کے درمیان بہت مشہور ہے تو جس طرح رام کے وجود سے متعلق ہنود کی روایات وحکایات قبول ہوں گی تو اسی طرح یہ روایت بھی قبول کی جائے گی۔
رام چندرکے مشرک ہونے کا ثبوت ہے،لیکن موحد ہونے کا ثبوت نہیں۔رام چندر کی شہرت معبود ہنود ہونے کی حیثیت سے ہے۔راجہ یا راجکمار ہونے کی حیثیت سے نہیں۔
ہندو قوم میں بہت سے راجہ اورمہاراجہ گزرے ہیں،لیکن نہ ان کو پوجا جاتا ہے، نہ ان لوگوں کا اس قدر چرچا ہوتا ہے۔قوم ہنود رام کو اوتاراوربھگوان مانتی ہے، اور اوتار ہی کی حیثیت سے اس کی شہرت ہے۔رام کوساتواں اوتار اورکرشن کو آٹھواں اوتار مانا جاتا ہے۔ قوم ہنود اوتار کی پوجاکرتی ہے اور اوتار کو بھی معبود مانتی ہے،اسی اعتبارسے یہ دونوں معبود ہنود ہیں،ورنہ قوم ہنود بہت سے راجہ ومہاراجہ گزرے ہیں،مثلاً بکرماجیت وغیرہ۔
سوال:حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی نصاریٰ نے معبود بنالیا ہے، پس ان کی تعظیم وتکریم کا حکم کیا ہے؟
جواب: حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے اولوالعزم نبی ورسول ہیں۔ ان کا نبی ورسول ہونا خبرمتواترسے بھی ثابت ہے اور قرآن وحدیث میں بھی اس کا تفصیلی ذکر ہے۔نبی ہونے کی حیثیت سے اہل اسلام ان کی تعظیم وتوقیر کرتے ہیں،گرچہ نصاریٰ ”ابن اللہ“ سمجھ کر ان کی عبادت بھی کرتے ہیں۔قوم مسلم پیغمبر خدا ہونے کے سبب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعظیم وتکریم کرتے ہیں،کیوں کہ مذہب اسلام میں اللہ تعالیٰ کے مبعوث کردہ تمام پیغمبران کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے اوران کی تعظیم وتکریم کا حکم ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مسلمانوں کا تعلق نبی ورسول ہونے کی حیثیت سے ہے۔ اگرحضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃوالسلام کی عبادت نصاریٰ نہ بھی کرتے تو بھی مسلمانوں پر لازم تھا کہ ان کونبی ورسول مانیں۔یہ قرآن مجید کا حکم ہے:(لانفرق بین احد من رسلہ)(سورہ بقرہ)
غیرمومن معبودان کفار کا تعلق مسلمانوں سے کسی طرح نہیں،بلکہ معبودان کفارسے تعلق نہ رکھنے کا حکم قرآن وحدیث میں ہے۔ غیرمومن معبود ان کفار کو ایک اولوالعزم نبی ورسو ل حضرت عیسی علیہ الصلوٰۃ والسلا م پر قیاس کرنا غلط ہے۔غیر مومن معبودان کفار کا حکم جداگانہ ہے۔بحث اول وبحث دوم میں تفصیل مرقوم ہے۔
غیرمومن معبودان کفار کی تعریف و توصیف ان کی تعظیم ہے،اور غیرمومن معبودان باطل کی تعظیم کفرہے۔ ہمیں قرآن مجید نے حکم فرمایا کہ ادیان باطلہ کے معبودان باطل کونہ برا بھلا کہیں،نہ ہی ان سے تعلق رکھیں۔
ارشاد الٰہی ہے:(وَلَا تَسُبُّواالَّذِینَ یَدعُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدوًا بِغَیرِ عِلمٍ)(سورہ انعام:آیت 108)
ترجمہ:اور انہیں برا نہ کہو جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں کہ وہ زیادتی کرتے ہوئے جہالت کے سبب اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے۔(کنزالایمان)
غیر مومن معبودان کفار کی تعظیم وتوقیرمیں حیثیتوں کا فرق معتبر نہیں۔بحث اول،بحث دوم وبحث سوم میں تفصیل مرقوم ہے۔غیر مومن معبودان کفار کی تعظیم وتکریم کفر ہے۔