تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
ملک بھارت میں یہ عام رواج ہے کہ جب دو انسانوں میں کوئی اختلاف ہوتا ہے تو گاوں کے چند لوگ مل بیٹھ کر اس معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں,تاکہ معاملہ حل ہوجائے۔
پنچایتوں میں بڑے معاملات بھی حل کئے جاتے ہیں,تاکہ معاملہ کورٹ تک نہ جا سکے,کیوں کہ کورٹ میں معاملات کا حل طویل مدت بعد ہوتا ہے اور کورٹ کے معاملات بھی وکیل اور متعلقہ افراد کی امانت داری پر موقوف ہے,ورنہ کورٹ میں بھی مجرم کو بے قصور ثابت کر دیا جاتا ہے اور بے قصور کو پھانسی دے دی جاتی ہے۔
انسانوں کے لئے ایک بڑی مصیبت یہ سامنے آگئی ہے کہ اب بہت سی پنچایتوں میں بھی دلالی ہونے لگی ہے,یعنی پنچایت کے لوگ کسی ایک فریق سے رشوت لے لیتے ہیں اور انتہائی بے حیائی کے ساتھ غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں اور غلط فیصلہ دیتے ہیں۔
مسلمانوں کو اپنے معاملات حل کرنے کے لئے اسلامی دار القضا میں معاملات حل کرانے کی بھی ترغیب دی جاتی ہے,لیکن مظلوموں,لاچاروں اور بے کس و بے بس افراد کو اگر دار القضا میں بھی انصاف مل جائے تو یہ اس کی خوش قسمتی ہے,ورنہ بعض قاضی بھی انسان نما بھیڑئیے ہوتے ہیں۔وہ انسان ہی ہوتے ہیں,لیکن ان کے دل میں شیطان بیٹھا ہوتا ہے اور فیصلہ وہ شیطان ہی کرتا ہے,نہ کہ وہ انسان جسے آپ قاضی کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔
سوئے اتفاق میں ان سب مراحل سے گزر چکا ہوں۔ایک مسئلہ لے کر ایک دار القضا چلا گیا۔معاملہ ایسا الجھا کہ آج تک افسوس ہوتا ہے کہ میں دار القضا کیوں چلا گیا۔
اس تحریر سے مقصود مظلوموں اور بے سہاروں کو محض اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ دار القضا,پنچایت اور کورٹ,ان تینوں میں سے کہیں بھی انصاف ملنے کی سو فی صد امید نہ رکھیں۔اگر کوئی حادثہ درپیش ہو جائے تو آپ کے اہل خاندان میں جو لوگ سنجیدہ طبیعت اور معاملہ فہم ہوں,ان سے مشورہ لیں۔اپنے خیر خواہ قسم کے رشتہ داروں اور سچے دوستوں سے خوب مشورہ کرلیں,تاکہ اللہ تعالی کوئی بہتر راہ ظاہر فرمائے۔اگر یہی لوگ مل بیٹھ کر معاملہ حل کر دیں تو امید ہے کہ فیصلہ بہتر ہو گا۔
اتنا یاد رکھیں کہ بے سہاروں اور کمزوروں کو انسانوں کے یہاں انصاف پانا بہت آسان نہیں۔بس اللہ ورسول(عزوجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم)کو یاد کرتے رہیں۔آج یا کل مدد ضرور ہو گی:ان شاء اللہ تعالی