(مفتی آفاق احمد اشرفی کٹیہاری کی ملازمت سے سبک دوشی کے موقع پر ایک محب صادق کی تاثراتی تحریر)
از قلم: محمد اکبر علی اشرفی
لچھمنیاں ،سمری بختیار پور ،سہرسہ ،بہار
موبائل نمبر:8935901187
اس عالم رنگ وبو کا یہی دستور رہا ہے کسی کو کسی کی دائمی صحبت نصیب نہیں ہوتی. ہر ملنےوالے ایک دن بچھڑ جاتے ہیں، لوگ چلے جاتے ہیں، جسموں کے فاصلے بڑھ جاتے ہیں، آنے جانے کا سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے، جانے والے کو کون روک سکتا ہے۔
وہی کارواں، وہی راستے، وہی زندگی، وہی مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں، کبھی ہم نہیں
لیکن ان کی یادیں اور ان کے ساتھ گذارے ہوئے لمحات روزوشب قلب و دماغ کے پردہ پر ہمیشہ ہمیش کے لیے حسین یادوں کے دلفریب اور دیدہ زیب تصویریں نقش کر جاتے ہیں، جو کبھی محو نہیں ہوتی.
ااستاذ العلماء حضرت مولانا و مفتی محمد آفاق احمد اشرفی صاحب قبلہ، صدرالمدرسین دارالعلوم قادریہ انوار العلوم سربیلہ ،سہرسہ آج اپنی ٣٣/سالہ تدریسی خدمات سے سبکدوش ہوگئے. آج ان کے الوداعی تقریب میں ہر آنکھیں نم تھیں، ان جھلملاتی بوڑھی آنکھوں کو بھی دیکھا جس نے پچاس سال پہلے ایک دبلے پتلے چھریرے بدن والے لڑکے کو مستانہ وار مولانا حبیب الرحمن صاحب (والد بزرگوار مولانا محمد طبیب الدین اشرفی صاحب علیہ الرحمۃ) کے ساتھ آتے ہوئے دیکھا تھا آج رخصت ہو رہا تھا. کسی نے صحیح کہا ہے "استاد کبھی ریٹائر نہیں ہوتا وہ تو آنے والی نسلوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے ، ریٹائر تو سرکاری ملازم ہوتا ہے”.
خیر! حضرت مولانا 1.1.1959 ءکو ضلع کٹیہار کے ایک سیلابی گاؤں بلیہار پور میں ایک علمی خانوادے میں پیدا ہوئے، ان کے والد حضرت مولانا محمد سلیمان رضوی صاحب اس علاقے کے جید عالم تھے. ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی. پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے دارالعلوم قادریہ انوار العلوم چلے آئے جو اس وقت کوسی کمشنری میں امتیازی اہمیت کا حامل تھا، حضرت یہاں کیا آئے کہ یہیں کے ہوکر رہ گئے. اعلیٰ تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے استاد حضرت مولانا مفتی عبد الرشید صاحب علیہ الرحمۃ کی ایما پردس سال تک معین المدرس کے بطور خدمت انجام دی. سن1987ء میں اسی ادارے میں ان کی تقرری ہوئی اور آج ان کی خدمات کا آخری دن تھا.
اس دوران حضرت نے علاقے کے دوردراز گاؤں میں جا جا کر دین وسنیت کا وہ کام کیا جوآب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے. دن میں درس وتدریس میں مشغول رہتے، شام میں دعوتی مشن پر نکل جاتے. اپنے استادِ محترم کے وصال کے بعد تو آپ پر دوہری ذمہ داری آگئی. تدریسی اور دعوتی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ فتویٰ نویسی کا کام بھی انجام دینا شروع کیا، اس پر مستزاد کہ دارالعلوم غوثیہ کی تعلیمی نظامت کے فرائض بھی نبھانے لگے.اتنا ہی نہیں مغرب کی نماز کے بعد عوام الناس کا تانتا لگارہتا تھا کوئی پانی دم کروا رہا ہے، کوئی اپنے بچوں کی صحت یابی کی دعائیں کروارہا ہےتو کوئی اپنے مسائل کے حل کے لیے باری کا انتظار کر رہا ہے. لیکن واہ رے مرد مجاہد کبھی کسی فرائض منصبی سے پہلو تہی نہیں کی اور نہ کبھی تھکے. ایک عالم میں جو خصوصیات ہو نی چاہیے ان میں بدرجہ اتم موجود ہیں. اور کیوں نہ ہو کہ مفتی عبد الرشید صاحب کے پروردہ اور حضور اشرف الاولیاء کے تربیت یافتہ ہیں.
اللّٰہ تبارک و تعالیٰ انہیں عمر خضر عطا فرمائے اور دین وسنیت کی مزید خدمت لے اور ہم لوگوں کے دلوں میں یوں ہی زندہ وتابندہ رہیں۔
آنکھ سے دور سہی، دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گ