ازقلم: برکت امجدی پیپاڑ جودھپور
ایک مدت قبل مساجد یوم جمعہ کو سامعین سے قبل خطیب پر ہو جاتی تھی لوگ چوکنے ہوکر مکمل خطاب سنتے تھے یہ رمضان کے جمعہ کا نہیں بلکہ عام جمعہ کا حال تھا اصلاح بھرے ، پر مواد ، حوالہ سے مزین جدید باتوں کی چاشنی کو سننے کے بعد بھی دل نہیں بھرتا تھا تو اگلے جمعہ کے شدید منتظر رہتے تھے کل کے بالمقابل آج لوگوں کا ذوق کم، تقریر سے بور ہونے، اختتام خطاب سے پانچ منٹ قبل رونما ہوتے ہیں وہ بھی سنت قبلیہ میں لگ جاتے ہیں بعض افراد تو اختتام کا اشارہ تک کر دیتے ہیں یہ سب قبیح امور کیونکر ہوئے ہیں جمعہ کے خطاب سے ہٹ کر اگر آپ عام جلسوں کا حال دیکھو تو وہ اس سے بھی ابتر ہے ثقیل رقم کے خرچ کے باوجود سامعین حاضر نہیں ہوتے ہیں سوائے پیر کی آمد کے یہ سب ناکامیوں کی راہ پر کیوں چل بسے ؟ کیا قوم مکمل تعلیم دین سے آراستہ ہو چکی ہیں ؟ کیا عوام کی علماء سے عداوت بڑھ گئی ہے ؟ یا ایسا تو نہیں ہے کہ مقررین سنی سنائی باتیں بیان کرنے لگے ہیں یا واقعات و خطاب کی تکرار کی وجہ سے لوگ اکتانے لگے ہیں یا ہمارا مطالعہ کثرت کے بجائے قلت کی جانب مائل ہے
معزز قارئین اکثر خطباء کو دیکھا ہے کہ ان کے پاس چند کتب کے علاؤہ کوئی معتبر کتابی سرمایہ نہیں شوشل میڈیا پر سنے سنائے واقعات بڑے جوشیلے انداز میں بیان کرنا حوالے کا نام تک نہیں بلکہ خود بھی نہیں جانتے ہیں موضوع اور ضعیف روایات کو بے باک انداز میں بیان کرنا واٹس ایپ فیسبک یا دیگر ذرائع سے موصول شدہ بات کو یقین کے ساتھ بیان کرنا بغیر مطالعہ کتب کے ممبر کا ذمہ دار بن جانا دور حاضر کے حالات سے پرے اٹھ کر بے معنیٰ خطاب کرنا اعداء اسلام کے ناپاک منصوبوں سے بے خبر ہوکر زمانہ قدیم کے خطاب کی تکرار کرنا اسلام پر کئے جانے والے اعتراضات کے معقول جواب نہ دینا اہم نقاط کو ترک کر کے فضول گوئی میں وقت پاس کرنا خطاب کا مواد سے خالی ہونا شاید ان سبھی وجوہات کی بنیاد پر ہمارے جمعہ کا خطبہ و جلوسوں کے خطاب سامعین سے خالی رہتے ہیں
ہمیں اپنے خطاب کو مؤثر بنانے کے لئے اولاً خود کا عمل قرآن کہتا جو نہیں کرتے وہ کیو کہتے ہو کیوں؟ اور کیسے؟ کا ذہن بنائے پھر دیکھوں لوگ کیسے قربت اختیار کرتے ہیں اس کے لئے ہر خطیب کے پاس تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حیات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم، اولیاء کرام رحمة اللہ علیھم، تصوف سے متعلق کم از کم پانچ پانچ کتب کا ہونا ضروری ہے ان کتب کو الماری کی زینت بنانے کے بجائے مطالعہ کی میز تک لائے مطالعہ کی گہرائی زبان اور فکر میں سنجیدگی پیدا کرتی ہے کلام میں توانائی لاتی ہے اس کے بعد اپنے موضوع کا انتخاب کریں اب اس کے متعلق اولاً تفسیر دیکھے بعدہ حدیث تلاش کرے پھر سیرت النبی میں کچھ واقعات اخذ کرے تصوف کی راہ سے بھی گزارے
خالص حجرہ نشین نہ بن کر حالات حاضرہ پر بھی دقیق نظر رکھے اور آئے دن اسلام و مسلمین پر اٹھنے والے اعتراضات کا تحقیقی جواب کو بھی خطبہ میں جگہ دیں اور ایسے واقعات جو مکرر ہے ان کی طرف صرف اشارہ کافی ہے
آج ہم رونا رورہیں ہیں کہ عصری تعلیم یافتہ افراد ہمارے جلسوں سے دور کیو ہے ؟ ان کا تو کیا علماء بھی خطاب میں پہنچتے نہیں ہیں اس لئے کہ ان کو کوئی علمی بات حاصل نہیں ہوگی فالتوں تضیع اوقات کرنے سے کیا فائیدہ اگر ہمیں اپنی مجلسوں کو تحقیق کا فقدان بننے سے بچانا ہے تو تحقیقی اور سنجیدہ خطاب کو اہمیت دینی ہوگی ورنہ ایک وقت ایسا بھی دیکھنا پڑھ سکتا ہے کہ لوگ جلسوں سے بیزار ہو کر رہ جائے گے جب ہم اپنا کام محنت سے نہیں کرتے ہیں تو پھر اجرت میں کثرت کا مطالبہ بیجا ہے۔