ازقلم: فیضان علی فیضان
محفل میں اس قدر بھی تماشا نہ کیجئے
لوگوں کے سامنے ہمیں رسوا نہ کیجیے
لازم ہے پہلے ظرف کو پہچان لیجیے
یوں امتحاں میں خود کو تو ڈالا نہ کیجیے
سنتے ہی درد تیرا جو آنکھیں چھلک گئیں
یوں دردِ دل کسی کو سنایا نہ کیجیے
نظرِ کرم ہی چاہیے راہِ حیات میں
موسم کی شدتوں سے تو ہارا نہ کیجیے
کہتی ہیں آج مجھ سے یہ خوش رنگ تتلیاں
ہرگز کبھی بھی خود سے کنارہ نہ کیجئے
اے دل میرے ٹھہر ذرا الفت کی بات سن
سر کو کسی کے آگے جھکایا نہ کیجیے
فیضان عجیب کیفیت دل پر گزرتی ہے
یوں قہر کی نظر سے تو دیکھا نہ کیجیے