ازقلم: محمد فیضان سرور مصباحی اورنگ آبادی
استاذ: جامعۃ المدینہ، نیپال گنج (نیپال)
مجتہدِمطلق امام اعظم ابو حنیفہ حضرت نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی علمی حدیثی اور فقہی جلالتِ شان مسلم ہے ۔ جن کے پیش نظر وقت کے جلیل القدر فقہا و محدثین اور اصحابِ جرح وتعديل نے آپ کی شان میں توثیقی کلمات کہے اور آپ کو منفرد ویکتا اور بے مثالِ زمانہ امام قرار دیا ہے۔ آنے والے سطور میں اکابرِ امت کے چند اقوال پیش کیے جارہے ہیں ۔
● يَحْيى بن مَعِينٍ يَقُولُ: «كانَ أبُو حَنِيفَةَ ثِقَةً، لاَ يُحَدِّثُ بِالحَدِيثِ إلاَّ بِما يَحْفَظُهُ. ولا يحدث بما لا يحفظ؛ (سير أعلام النبلاء ج: ٦،ص: ٣٩٥).
یعنی : امام جرح وتعديل حضرت ابو زکریا یحییٰ بن معین متوفیٰ : ٢٣٣ھ فرماتے ہیں: ابوحنیفہ ثقہ تھے۔ وہ حدیث نہیں بیان کرتے تھے، مگر وہی جو انھیں حفظ ہوتی۔ جو یاد نہ ہو؛ انھیں بیان نہ کرتے تھے ۔
● قَالَ صالِحُ بْنَ مُحَمَّدٍ الأسَدِيُّ عَنْ ابْنِ مَعِين: « كانَ أبُو حَنِيفَةَ ثِقَةً فِي الحَدِيثِ ». (تهذيب الكمال ٧/٣٣٩)
حضرت صالح بن محمد اسدی متوفیٰ ؛ ٢٩٣ھ نے امام یحییٰ بن معین کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ابوحنیفہ فن حدیث میں ثقہ تھے۔
● قال الشافعي: قيل لمالك: هل رأيت أبا حنيفة؟ قال: نعم، رأيت رجلًا لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهبًا، لقام بحجَّته؛ (سير أعلام النبلاء ج: ٦،ص: ٣٩٩).
حضرت امام محمد بن ادریس شافعی متوفیٰ:٢٠٤ھ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام مالک – رضي الله عنه – سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے؟ فرمایا : بالکل، میں نے ایسے شخص کو دیکھا ہے کہ اگر وہ اس ستون کے بارے میں سونا ہونے کا قول کرلیں؛ تو ضرور اسے اپنی دلیل سے ثابت کردیں گے ۔
●قالَ الشّافِعِيُّ: مَن أرادَ الفِقْهَ فَهُوَ عِيالٌ عَلى أبِي حَنِيفَةَ. (البداية والنهاية ١٣/٤١٩)
یعنی : مجتہد مطلق حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو فقہ میں گہرائی حاصل کرنا چاہتا ہے؛ وہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا محتاج ہے ۔
● عَلِيّ بْن ميمون، قالَ: سمعت الشافعي، يقول: إني لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء إلى قبره في كل يوم، يَعْنِي زائرا، فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين، وجئت إلى قبره وسألت الله تعالى الحاجة عنده، فما تبعد عني حتى تقضى. (تاريخ بغداد،١/١٣٥)
یعنی : حضرت علی بن میمون نے فرمایا کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا کہ بے شک میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے برکت حاصل کرتا ہوں، اور ہر روز ان کی قبر کی زیارت کے لیے آتا ہوں۔ جب مجھے کوئی حاجت پیش آئے؛ تو میں دو رکعت نماز پڑھتا ہوں، اور امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر حاضری دیتا ہوں۔ اور قبر کے پاس اللہ تعالی سے دعا مانگتا ہوں؛ تو وہ میری حاجت بہت جلد پوری ہو جاتی ہے۔
● قالَ سُفْيانُ الثَّوْرِيُّ :«كان أبو حنيفة أفقه أهل الأرض في زمانه». (الفقيه والمتفقه ٢/ ٧٣)
یعنی : امام سفیان ثوری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اپنے زمانے میں روئے زمین کے سب سے بڑے فقیہ تھے ۔
● قال علي بن عاصم: لو وُزن علم الإمام أبي حنيفة بعلم أهل زمانه، لرجح عليهم.(سير أعلام النبلاء ،٦ / ٤٠٣).
یعنی : حضرت علی بن عاصم کہتے ہیں کہ اگر امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے علم کا ان کے اہلِ زمانہ کے علم سے موازنہ کیا جائے؛ تو آپ کا علم ان کے علم پر غالب ہوگا ۔
● قال عبدالله بن المبارك: ما رأيت رجلًا أوقر في مجلسه، ولا أحسن سمتًا وحِلمًا من أبي حنيفة (سير أعلام النبلاء ج: ٦،ص:٤٠٠).
یعنی : حضرت عبداللہ بن المبارک نے فرمایا : میں نے امام ابوحنیفہ سے بڑھ کر کوئی شخص نہیں دیکھا جو اپنی نشست پر زیادہ عزت ووقار والا ہو اور نہ ہی حسنِ اخلاق اور نہ ہی بردباری میں اس سے بہتر کسی کو پایا ۔
● قالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ داوُدَ الخُرَيْبِيُّ: يَنْبَغِي لِلنّاسِ أنْ يَدْعُوا فِي صَلاتِهِمْ لِأبِي حَنِيفَةَ؛ لِحِفْظِهِ الفِقْهَ والسُّنَنَ عَلَيْهِمْ. (ایضاً)
یعنی :حضرت عبداللہ بن داؤد خریبی فرماتے ہیں کہ لوگوں کو چاہیے کہ اپنی نمازوں میں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کیا کریں؛ کیوں کہ انھوں نے لوگوں کے لیے فقہ و سنت کی حفاظت فرمائی ہے ۔
● قال حفص بن غياث: «كلام أبي حنيفة في الفقه أدق من الشعر، لا يعيبه إلا جاهل». (سير أعلام النبلاء،٦/ ٤٠٤)
یعنی : حضرت حفص بن غیاث کہتے ہیں کہ فقہ کے معاملے میں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا کلام؛ شعر سے زیادہ باریکیاں لیے ہوئے ہے ۔ ان کی عیب جوئی کوئی نرا جاہل ہی کرسکتا ہے ۔
● وقال شعبة بن الحجاج : كان والله حسَنَ الفهم، جيد الحفظ؛ (الخيرات الحسان ـ لابن حجر المكي صـ ٣٤).
امام شعبہ بن حجاج نے فرمایا : بخدا! امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ حسنِ فہم کے مالک اور جید الحفظ (یعنی : اچھی یاد داشت والے) تھے ۔
● قال مكي بن إبراهيم : كان أبو حنيفة أعلمَ أهلِ الأرض. (البداية والنهاية، ١٠/ ١١٠)
امام بخاری کے استاذ شیخ مکی بن ابراہیم رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ روئے زمین پر سب سے بڑے عالم تھے ۔
● قال يحيى بن سعيد القطان: لا نكذب الله، ما سمعنا أحسنَ مِن رأي أبي حنيفة، وقد أخذنا بأكثرِ أقواله (سير أعلام النبلاء ،٦ /٤٠٢ )
یعنی : امام یحییٰ بن سعید القطان فرماتے ہیں : ہم خدا سے جھوٹ نہیں بولتے، ہم نے امام ابوحنیفہ کی رائے سے اچھی کوئی رائے نہیں سنی ، اور ہم نے ان کے اکثر قول کو لےلیا ہے۔
● قال أبو نُعيم الأصبهاني: كان أبو حنيفة صاحبَ غوصٍ في المسائل (تهذيب التهذيب ، ٥ /٦٣٠)
یعنی : امام ابونعیم اصفہانی کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ مسائل کی خوب تہ تک پہنچنے والے تھے ۔
● قال سوار بن حكم : ما رأيتُ أورع منه؛ نُهِي عن الفتيا، فبينا هو وابنته يأكلان تخللت ابنته، فخرج على خلالها صفرة دم، فقالت: يا أبت، عليَّ في هذا وضوءٌ، فقال: إني نُهِيت عن الفتيا، فحلفتُ لهم، فسَلِي أخاك حمادًا؛ (الانتقاء لابن عبدالبر صـ 169).
یعنی : حضرت سوار بن حکم کہتے ہیں کہ میں نے ان سے زیادہ صاحبِ تقوی و ورع کوئی نہیں دیکھا۔ ان کو فتویٰ دینے سے منع کیا گیا تھا، چنانچہ جب وہ اور ان کی بیٹی کھانا کھا رہے تھے؛ اس دوران ان کی صاحبزادی نے صفرہ آمیز خون کی قے کی، صاحبزادی نے عرض کیا : ابا جان! کیا اس کی وجہ سے مجھ پر وضو کرنا لازم ہوگیا ؟ انھوں نے کہا: مجھے فتویٰ دینے سے منع کیا گیا ہے۔ میں نے لوگوں سے قسم کھائی ہے ۔ لہٰذا اپنے بھائی حماد سے پوچھ لو۔
● قال أسد بن عمر: صلى أبو حنيفة الفجرَ بوضوء صلاة العشاء أربعين سنة، فكان عامةَ الليل يقرأ جميع القرآن في ركعة واحدة، وكان يُسمَع بكاؤُه بالليل حتى يرحَمَه جيرانُه؛ (تاريخ بغداد، ١٣ /٣٦٣).
یعنی : حضرت شیخ اسد بن عمر کہتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے چالیس سال تک عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی، عام راتوں کا معمول تھا کہ ۱یک رکعت میں پورا قرآن پڑھ لیا کرتے تھے، رات میں ان کی گریہ وزاری کی آواز سنی جاتی تھی، حتی کہ پڑوسیوں کو ان پر ترس آتا تھا ۔
● قال الذهبي: الإمامة في الفقه ودقائقه مسلَّمةٌ إلى هذا الإمام، وهذا أمرٌ لا شك فيه؛ (سير أعلام النبلاء ،٦ /٤٠٠).
یعنی : امام ذہبی فرماتے ہیں کہ فقہ اور اس کی باریکیوں سے متعلق درجۂ امامت اِس امام کے حوالے کردیا گیا ہے ۔ اور یہ ایسی بات ہے کہ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ۔
● قال ابن حجر العسقلاني: مناقب الإمام أبي حنيفة كثيرة جدًّا؛ فرضِيَ الله تعالى عنه، وأسكنه الفردوسَ، آمين (تهذيب التهذيب ،٥ /٦٣١).
یعنی : امام بن حجر عسقلانی شافعی فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے فضائل بہت زیادہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو، اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔
۲ ؍ شعبان ١٥٠ ھ میں آپ کا وصال ہوا ۔ جنازے میں لوگوں کا ہجوم اس قدر تھا کہ چھ مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ آپ کا مزار شریف بغدادمعلی میں زیارت گاہ عوام وخواص ہے ۔