تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
مدیر اعلی سوادِ اعظم دہلی
اسلام حدود عرب کو پار کرتا ہوا اہل عجم کے دلوں میں جگہ بنا رہا تھا….. ایک طرف نو مسلموں کی تعداد بڑھ رہی تھی ، تو دوسری جانب قدیم مسلمانوں کی نئی پیڑھی جوان ہوچکی تھی…. دونوں ہی قسم کے افراد کما حقہ قرآن وحدیث سے اخذ مسائل کی صلاحیت سے محروم تھے…. کس آیت کا کیا مفہوم ہے ، کتنے مسائل نکلتے ہیں ؟
یہ بتانے والے صحابہ بھی ایک، ایک کرکے رخصت ہو رہے تھے…. ایسے ماحول میں اہل عجم کی قسمت کا سورج طلوع ہوا….. سرزمین عرب سے ظاہر ہونے والے دین اسلام کی تعبیر وتشریح کے لئے مبدأ قدرت نے ثابت بن زوطی(نعمان) کوفی کا گھر منتخب فرمایا ، اور ان کے گھر پر ایک سعادت مند بچے کی پیدائش ہوئی۔
یہ مبارک زمانہ 80ھ کا تھا ،ابھی رسول ہاشمیﷺ کے کئی صحابہ بقید حیات تھے….. یعنی بہترین زمانوں میں دوسرا زمانہ ابھی باقی تھا….. ادھر جناب ثابت کا نور نظر علم وفن کی منزلیں طے کر رہا تھا….. فیاضی قدرت سے اعلی درجہ کی ذہانت پائی تھی….. دن ہفتوں ، ہفتے مہینوں اور مہینے سالوں کا سفر طے کرتے ہوئے گزرتے رہے یہاں تک کہ دیکھتے ہی دیکھتے جناب ثابت کا بیٹا "نعمان” ایک خوب رو جوان کی شکل اختیار کر گیا….ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے آبائی پیشے تجارت کو اختیار کرلیا اور خوب نام کمایا….. مگر قدرت نے اس نوجوان کو محض تجارت ہی کے لئے پیدا نہیں کیا تھا….اس لئے لامحالہ اس نوجوان کو حصول علم کی جانب راغب ہونا ہی تھا….تحصیل علم کی جانب رغبت کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے ، اوائل جوانی میں ایک اچھے تاجر کی شناخت رکھتے تھے….. ایک دن راستے میں محدث وقت حضرت عامر شعبی مل گئے، پوچھا؛
"اے جوان! کہاں جارہے ہو؟
عرض کی فلاں تاجر کے پاس!
حضرت عامر شعبی نے کہا، میں سمجھا تم علما کے پاس جارہے ہو…..
عرض کی، میرا علما کے پاس جانا ذرا کم ہی ہوتا ہے۔
اتنا سن کر جناب شعبی نے فرمایا:
"غفلت میں نہ پڑو ، خود کو تحصیل علم میں لگاؤ ، علما کی مجلسوں میں جایا کرو ، میں تم میں بیدار مغزی اور کھوج لگانے کا مادہ دیکھتا ہوں۔”
اتنا سنتے ہی دل کی دنیا میں ایک تلاطم برپا ہوگیا…… بازار اور تجارت کی محبت دل سے نکل گئی۔اکتساب علم کا جذبہ ایسا بیدار ہوا کہ سب کچھ چھوڑ کر پوری طرح طلب علم میں مستغرق ہوگئے۔ تحصیل علم کا جنون وجذبہ اس قدر تھا کہ آپ کے مشائخ واساتذہ کی تعداد قریب چار ہزار بتائی جاتی ہے !!!
طویل عرصے تک حصول علم کے بعد جب یہ نوجوان منظر عام پر آیا تو آنکھوں میں علم کی گہرائی ، پیشانی پر وراثت نبوی کا تاج زریں ، دل میں خدمت کتاب وسنت کا جذبہ بے کراں ، موجیں مار رہا تھا۔
یہی جذبہ اس نوجوان کو آل رسول ، فاطمی پھول، سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی بارگاہ سیادت میں لے گیا…… علم وفن ، فکرو شعور کی دولت تو پہلے ہی سے موجود تھی ، اب ایک بزرگ کی صحبت ملی تو اثر دو آتشہ ہوگیا ، یہاں تک کہ نوجوان پکار اٹھا:
"لولا السنتان لھلک النعمان”
اگر میری زندگی میں خدمت جعفری کے دو سال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا۔
علم وفن ، شعور و ادراک ، دقت نظر ، فکر وآگہی ، اور خدمت کتاب وسنت کے جذبے سے سرشار یہ خوش بخت جوان جب عملی دنیا میں وارد ہوا تو ہر چہار جانب ایک دھوم مچ گئی….. نعمان بن ثابت کا علم نصف النہار پر چمکا…… کتاب وسنت سے اخذِ مسائل کے قواعد و ضوابط مقرر کئے گئے….. عوام الناس کے لئے عمل کرنا آسان ہوتا گیا….. کشاں کشاں طلبائے اسلام اس آفتاب علم کے ارد گرد جمع ہوتے گئے ، اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک علمی کہکشاں بن گئی….. اب متبحر علما کی ایک بڑی جماعت موجود تھی۔ جس کے افراد اجتہادی صلاحیتوں سے مالامال تھے….. فضل خداوندی شامل حال تھا ، عنایت مصطفیٰ قدم بہ قدم نگہبان تھی…….مصطفیٰ جان رحمت کی اس بشارت کا وقت قریب آرہا تھا جو آپ نے فرمایا تھا:
"اگر علم ثریا ستارے پر بھی پہنچ جائے گا تو فارس کے بیٹے اسے اتار لائیں گے”
ایسا ہی ہوا ، اس حدیث کا فرد کامل بن کر جناب ثابت کے گھر پیدا ہونے والے نعمان بن ثابت نے اپنے خداداد علم سے زمانے کو منور کر دیا۔
تیس سال تک آپ کے علم سے طالبان علوم نبویہ فیض یاب ہوتے رہے ، فیض رسانی کا یہ عالم تھا کہ آپ کی خصوصی تعلیم وتربیت سے ہزاروں فقیہ پیدا ہوئے….. علامہ کردری کی روایت کے مطابق آٹھ سو(800) ایسے شاگرد گزرے ہیں جو فقہا ومحدثین کی صف میں نمایاں ہیں…. بقیہ عام شاگردوں کی تعداد اس پر مستزاد !!!
امام بخاری کے استاذ امام مکی بن ابراہیم اسی بارگاہ کے شاگرد تھے ، یعنی امام بخاری کی خدمتِ حدیث اسی بارگاہ کا فیضان ہے…….آپ کے شاگردوں میں وقت کے جید ترین علما شامل تھے ، ان افراد میں بھی آپ نے انتہائی مخصوص افراد کو لیکر تدوین فقہ کی مجلس تشکیل دی ، جس کے قریب 50 ارکان کے نام کتب سیر میں درج ہیں ان عظیم المرتبت ائمہ میں امام ابو یوسف،امام زفر، امام محمد بن حسن شیبانی، اور علی بن مسہر کوفی جیسے افراد شامل ہیں…..علم وفن اور فقہ اسلامی کی بے مثال خدمت نے آپ کی شہرت کو چہار دانگ عالم میں پھیلا دیا۔
جو نوجوان کل تک نعمان بن ثابت کے نام سے جانا جاتا تھا وہ علمی دنیا کا "امام اعظم” بن چکا تھا۔
جس کی درس گاہ کی شہرت زمانے میں تھی…. جس کی بارگاہ میں ہر لاینحل مسئلے کا جواب موجود تھا۔
صحبت صحابہ کی برکت سے تابعیت کا تاج زریں مل ہی چکا تھا….. اس اعزاز کی برکت سے اقوال قرآن و حدیث میں منشا خدا ورسول سمجھنے کا جو ملکہ حاصل ہوا وہ صحبت صحابہ کی برکتوں کا نتیجہ تھی !!
آخر کار اس خواب کی تعبیر ظاہر ہوئی جو آپ نے دیکھا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف سے مٹی نکال رہے ہیں…. یہ خواب دیکھ کر بے حد پریشان ہوئے اور ایک عزیز کے ذریعے امام محمد بن سیرین سے اس کی تعبیر معلوم فرمائی تو انہوں نے فرمایا :
"ھٰذا رجل ینبش اخبار النبی صلی اللہ علیہ وسلم”
یہ شخص اپنے علم وفضل سے رسول اللہ ﷺ کی احادیث سے مسائل کا استخراج اور نئے امور کی عقدہ کشائی کرے گا۔
ایسا ہی ہوا سیدنا امام اعظم نے اپنے علم وفن سے پوری کائنات کو روشن کر دیا اور رسول اللہ ﷺ کی منشا کو اس احسن انداز میں دنیا کے سامنے ظاہر کیا کہ
امام شافعی پکار اٹھے:
"جو بھی علم فقہ حاصل کرنا چاہے وہ امام اعظم ابو حنیفہ کی شاگردی اختیار کرے”
خطیب بغدادی نے یوں خراج عقیدت پیش کیا:
"روئے زمین کے سب سے بڑے عالم امام اعظم ابو حنیفہ ہیں”
آج امام اعظم کے دبستان فقہ سے فیض حاصل کرنے والے اہل ایمان، کل تعداد مسلمین کے دو تہائی ہیں۔جو نسبت ابو حنیفہ سے حنفی کہلاتے ہیں۔
ہندوستان ، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، عراق، مصر ، بر اعظم افریقہ، تیونس،الجزائر ، امریکہ ، یوروپ ، روس ، ترکستان ،ترکی ، آذربائیجان ، آرمینیہ ، اور عرب ممالک میں بھی امام اعظم ابو حنیفہ کے دبستان سے فیض یاب ہونے والے سب سے بڑی تعداد میں ہے۔
آئیے آج امام اعظم کے یوم وصال کو "یوم امام اعظم” کے طور پر منائیں اور اپنے امام کے حضور عقیدتوں کا نذرانہ پیش کریں۔
نہ کیوں کریں ناز اہل سنت، کہ تم سے چمکا نصیبِ امت
سراجِ امت ملا ہو تم سا، امام اعظم ابو حنیفہ
(تین سال قبل 2 شعبان المعظم 1440ھ
8 اپریل 2019 بروز پیر کو لکھی گئی تحریر قدرے ترمیم کے بعد)