ازقلم: ذاکر فیضانی سکندری، پھلودی جودھپور راجستھان
ولادت باسعادت:
حضرت پیر سید شاہ صبغت اللہ شاہ ثانی راشدی المعروف بہ سورھیہ بادشاہ شہید قدس سرہ العزیز ٢٣ صفر المظفر سنہ ١٣٢٧ھ کو درگاہ عالیہ راشدیہ پیران پاگارا پیر جوگوٹھ ضلع خیرپور میرس ، سندھ پاکستان کی مبارک سرزمین پر پیدا ہوئے۔
القابات:
آپ کے مشہور القابات و خطابات یہ ہیں : پیر صاحب پاگارا شتم ، پگ دھنی ( صاحب دستار ) سورھیہ بادشاہ شہید ، امام انقلاب ، بطل حریت ، مجاہد اعظم۔
تعلیم و تربیت:
آپ نے اپنے والد محترم و پیر مرشد کی صحبت و رفاقت میں رہ کر تعلیمی وتربتی پروان چڑھے۔ انسان کی فطرت میں ہوتا ہے کہ جب وہ کسی بڑے عہدے پر فائز ہوجاتا ہے تو اسے تعلیم حاصل کرنے کا وقت بہت کم ملتا ہے مگر حضرت سورھیہ بادشاہ شہید علیہ الرحمہ کی وہ ذات ہے کہ آپ نے مسند نشیں ہونے کے بعد بھی زانوے تلمذ تہہ کئے۔ آپ کے اساتذہ کرام حافظ خدا بخش سومرو اور امام بخش مہیسر رحمہما اللہ کا اسما سرفہرست ہیں۔
سجادہ نشینی:
آپ اپنے والد بزرگوار شمش العلماء والعرفاء حضرت پیر سید شاہ مردان شاہ اول راشدی المعروف پیر صاحب پاگارا پنجم کے وصال کے بعد سجادہ نشیں ہوئے اور پیر صاحب ششم کی حیثیت سے متعارف ہوئے اس وقت فقط آپ کی عمر شریف بارہ سال کی تھی۔
زیارت حرمین شریفین:
سنہ ١٩٣٧ء میں آپ نے حج بیت اللہ شریف اور زیارت مدینہ منورہ سے باریاب ہوئے جب آپ جدہ شریف پہونچے تو وہاں کے بادشاہ عبدالعزیز نے آپ کو شاہی میں محل میں دعوت دی اس روحانی سفر مبارک میں چند لوگ آپ کے ہمراہ تھے۔
عادات و خصائل:
آپ علیہ الرحمۃ الرضوان متعدد اوصاف وکمالات کے حامل تھے مثلاً
٭ بسا اوقات اپنا کھانا خود اپنے ہاتھوں سے تیار کرتے۔
٭ فجر سے قبل اٹھ کر ورزش کرتے اور اس کے بعد نماز فجر جماعت سے ادا کرتے۔
٭ اکثر ایسا ہوتا کہ آپ اپنے مریدوں کے ساتھ مل جل کر کام کرتے۔
٭ اگر کوئی مرید نذرانہ پیش کرتا اور عرض کرتا کہ حضور قبول فرمائیں تو آپ فرماتے ” قبول ” لیکن کوئی ایک لاکھ بار درود شریف کا ہدیہ پیش کرتا تو فرماتے ” قبول ہے تم پر آفرین ہو ” اور اس کے لیے دعا فرماتے ۔
آپ نے تقریباً دس سال کا عرصۂ دراز قید و بند کی صعوبتوں میں گذارا لیکن قربان جائیے کہ جیل میں رہ کر بھی اپنے مریدوں کو نہیں بھولے
آپ قدس سرہ نے جیل میں رہ کر اپنے مریدوں کے لیے دینی و روحانی تربیت کے لیے کتاب بھی لکھی جس کا خلاصہ ڈاکٹر بلوچ نے مہران سوانح نمبر ١٩٥٧ ء میں درج کیا ہیں جس میں بعض باتوں کو ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے
٭ اے دوست ! حریص نہ بن حرص قاتل ہے۔
٭ ہزار عبادت ایک گناہ کے مقابلے میں نیست ہے۔
٭ اے دوست ! اپنے نفس کا شکار کر جو کہ عجب شکار ہے۔
٭ علم ، حیا ، فیاضی اور رحم کو ہاتھ نہ جانے دے۔
٭ اے دوست ! پیٹ تمہارا دُشمن ہے اس لیے زیادہ روزے رکھ کر پیٹ کا علاج کر ، جو تکلیف ( گناہ سے ) بہتر ہے۔
٭ اے دوست ! حساب اپنا صاف رکھ ، پھر کوئی غلطی نہ کرنا ، یہ کہنا یاد رکھ۔
٭ اے دوست ! زمانہ اچھا ہے خود کو اچھا بننا چاہیے۔ زمانہ کو خراب کہنے والا خود خراب ہے۔
رتنا گری جیل میں ملنے والے مریدوں سے فرمایا:
٭ فقیرو ! جماعت کو سلام کہیے گا کہ ذکر ( قادری تسبیح ) و نماز کی پابندی کریں۔
٭ جیسے پہلے نمازعید درگاہ شریف راشدیہ پر ادا کرتے تھے ، ویسے ہی وہیں جاکر ادا کریں میں آپ کے ساتھ ہوں۔
خدمات:
آپ علیہ الرحمہ نے مختصر زندگی پائی مگر اس مختصر زندگی میں نمایاں کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ رہتی دنیا تک آپ کی ان خدمات جلیلہ کو امت مسلمہ بھلا نہیں سکتی ۔ جن علمائے کرام و مفتیان کرام نے انگریز سامراج کے خلاف فتویٰ دیا تھا اس میں سر فہرست آپ کا اسم گرامی بھی آتا ہے۔
شہادت:
اللہ تعالیٰ کے فضل عظیم سے آپ نے مرتبہ شہادت کو بھی پایا اس وقت کے حکمرانوں نے آپ کو پھانسی کی سزا سنائی تو آپ نے فرمایا کہ "شہادت تو ہمارے سر کا تاج ہے ، اس میں پریشان ہونے کی کونسی بات ہے” بہر حال ٢٠ مارچ ١٩٤٣ ء / ١٤ ربیع الاول ١٣٦٢ ھ کو فجر کے وقت سینٹرل جیل حیدر آباد میں فقط ٣٥ سال کی عمر میں آپ کو پھانسی دے دی گئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون