قال اللہ و قال الرسول پر عمل پیرا شخصیات، خدا شناس اور برگزیدہ بندوں میں ایک نام ہے قطبِ وقت،عارف باللہ حضرت مولانا(مولوی)خواجہ عبدالسلام عباسی نقشبندی مجددی علیہ الرحمۃ والرضوان کا جنھوں نے اپنے فیضان کرامت سے ان گنت، لاتعداد بےآس و ناامید حضرات کو فیض یاب فرمایا ۔ اور مجھے اس پرانوار شخصیت کے دربار میں پہلی بار حاضری کا شرف ۲۰۰۴ء میں حضرت مولانا محمد ناظر القادری مصباحی (بنکاوالا ، مرادآباد) کے ساتھ طالب علمی کے دور میں حاصل ہوا۔ اس کے بعد دوران تعلیم جامعہ عربیہ اہل سنت نجیب الاسلام (نجیب آباد ، ضلع بجنور)میں استاذی و سندی حضرت علامہ مفتی محمد سلیم مصباحی مد ظلہ العالی کی مبارک زبان سے سنا۔بلا شبہ عارف باللہ حضرت خواجہ عبد السلام علیہ الرحمہ کے فیضان سے بے شمار لوگ مستفیض ہیں۔
ولادت باسعادت:
حضرت کی ولادت باسعادت (۱۸۶۴ء)میں موضع محدود قلمی،تھانہ ڈلاری،ضلع مرادآباد،یوپی،ہند۔ میں ایک اعلی گھرانے میں ہوئی۔
حسب و نسب:
آپ کے والد محترم کا اسم گرامی الہی بخش تھا اور آپ کے ایک بڑے بھائی تھے جن کا نام چھدّا تھا اور آپ کافی مدبر تھے لیکن بستی کا نظام بالکل الگ تھا۔کہ جہالت و نفرت ان لوگوں میں زیادہ تھی۔اللہ رب العز ت جل جلالہ کا فضل و کرم ہوا کہ جناب الہی بخش صاحب کے گھر( ۱۸۶۴ء) میں آپ چشم و چراغ بن کر ظاہر ہوئے۔ یہ صبح نو کا افتاب جب فرش زمین پر چمکا، تو اس کی نورانی شعاعوں کا اثر ہر قلب تاریک میں نظر آنے لگا اور سر زمین محدود قلمی سے ظلم و ستم اور جہالت و نفرت کے بادل خود بخود چھٹنے لگے۔ اللہ رب العزت جل جلالہ کا سر زمین محدود قلمی پر یہ فضل ہوا کہ حضرت کی پیدائش پوری بستی کے لیے راہ رشد و ہدایت ثابت ہوئی۔
تعلیم وتربیت:
ابتدائی تعلیم اپنے ہی گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے شہر امروہہ میں حضرت مولانا حافظ عباس علی نقشبندی مجددی علیہ الرحمہ اور انھیں کے لخت جگر حضرت مولانا احمد حسین نقشبندی علیہ الرحمہ کے پاس حاضر ہوئے اور دیگر اساتذۂ کرام سے ایک طویل مدت تک قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔
حقوق اللہ:
حضرت خواجہ عبدالسلام علیہ الرحمہ کی زندگی کا ہر گوشہ یاد خدا اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معمور تھا۔ اور آپ شریعت ع طریقت، تصوف اور صوم و صلوۃ،عبادت و ریاضت پر سختی سے عمل پیرا تھے۔
حقوق العباد:
آپ کے استاذ حضرت مولانا حافظ عباس علی علیہ الرحمہ نے ایک دفعہ مولانا عبد السلام کے کسی عمل صالح سے خوش کر ارشاد فرمایا اے عبد السلام وضو کر کے آؤ۔ تو آپ نے ٹال دیا پھر تین بار ارشاد فرمایا جو چاہو تم مانگ لو حضرت مولانا عبد السلام نے عرض کیا اے میرے پیر و مرشد آپ میری ایک بات مان لیجئے آپ کے پیر و مرشد نے ارشاد فرمایا کہو کیا بات ہے تو مولانا عبد السلام نے عرض کیا حضور آپ اپنے بیٹے حضرت مولانا احمد حسین صاحب کو خلافت دے دیجئے، بس پھر حضرت مولانا عبد السلام علیہ الرحمہ کے کہنے پر حضرت علامہ مولانا احمد حسین علیہ الرحمہ کو حیدرآباد سے بلایا گیا اور خلافت سے نوازا۔اور اس کے بعد حضرت مولانا احمد حسین علیہ الرحمہ مولانا عبد السلام کے اصرار پر حضور سیدی سرکار اعلی حضرت کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔( باقی آگے ذکر ہوگا)
بیعت وخلافت:
آپ اپنے استاد حضرت حافظ عباس علی نقشبندی مجددی علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئےاور کچھ عرصہ بعد خلافت سے نوازا اور آپ کو حضرت مولانا احمد حسین علیہ الرحمہ سے بھی خلافت حاصل تھی۔
آپ کے پیرو مرشد کا تعارف:
صاحب جود و سخا ، مجمع السلاسل حضرت مولانا خواجہ احمد حسین مجددی نقشبندی ابن شیخ المشائخ حضرت حافظ محمد عباس علی خاں 24؍شعبان المعظم 1289ھ کو اپنے وطن امروہہ ضلع مراد آباد میں پیدا ہوئے۔
ایک ضروری ازالہ:
حضرت مولانا احمد حسین امروہوی، مولوی قاسم نانوتوی کے شاگرد خاص تھے۔ مولوی قاسم نانوتوی نے آپ کی ذہانت سے متاثر ہوکر از خود آپ کو اپنے مدرسہ میں داخل کرلیا۔’’تذکرۃ الکرام‘‘ میں مرقوم ہے:’’کہ مولوی احمد حسین آپ کو’’علامہ بایزد‘‘کے لقب سے پکارتے تھے،اور آپ کی شاگردی پر فخر کرتے تھے، مگر آپ اپنے استاذ کے عقائد سے قطعی متاثر نہ ہوئے، بلکہ علی الاعلان استاذ کے عقائد و نظریات کی تردید و مخالفت کرتے تھے، یہ آپ کے جد اعلیٰ، حضرت شیخ جان محمد خاں قادری بلخی خلیفۂ امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ کا فیض و اثر تھا، نیز حضرت مولانا لطف اللہ علی گڑھی اور حضرت مولانا انواراللہ حیدرآبادی سے بھی آپ نےاستفادہ کیا۔
آپ کو بیعت و خلافت اپنے والد ماجد سے ملی تھی، اور وہ حضرت مولانا حکیم فخر الدین حکیم بادشاہ الہ آبادی کے مرید و خلیفہ اور عظیم المرتبت شیخ تھے، آپ کو حضرت سید محمد معروف علی شاہ قادری حیدر آبادی نے اجازت دی تھی۔
آپ ۲۴؍رمضان المبارک(۱۳۳۱ھ) میں بریلی شریف اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمۃ والرضوان سے ملاقات کے لیے پہنچے، مغرب کا وقت تھا، نماز مغرب کے قعدۂ اخیرہ میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ کو سرکار غوث اعظم سے آپ کو اجازت نامہ عطا کرنے کی ہدایت ہوئی، اعلیٰ حضرت نے بعد نماز اپنے سر مبارک کا عمامہ شریف اتار کر آپ کو مرحمت فرمایا اور تاج الفیوض البدیہہ تاریخ فرمائی،آپ پچاس سال تک بسلسلۂ ارشاد وملازمت حیدر آباد دکن میں مقیم رہے۔اور ۲۷؍رجب المرجب(۱۳۶۱ھ)مطابق۱۱؍اگست(۱۹۴۲ء) بروز شنبہ اجمیر شریف سے واپس ہوتے ہوئے سفر آخرت اختیار کیا۔ آپ کے محب صادق حضرت مولانا شاہ مفتی محمد مظہر دہلوی نے نماز جنازہ کی امامت کی۔دوسرے دن وطن میں بعد نماز والد ماجد کے پہلو میں دفن کیے گئے۔اور آپ نے بہت سی کتابیں تالیف فرمائیں، عربی، فارسی، اردو میں مشق سخن کرتے تھے۔ اور تذکرۂ خلفائے اعلیٰ حضرت میں بھی موجود ہےکہ تاجُ الْفُیُوض حضرت مولانا احمد حسین امروہوی نقشبندی قادری علیہ الرحمۃ والرضوان عالِمِ باعمل، شیخِ طریقت، شاعِر، کئی کُتُب کے مصنف اور مُتَرْجِم تھے۔ ۱۲۸۹ھ میں پیدا ہوئے۔ اور۲۷ ؍رجب المرجب ۱۳۶۱ھ میں وِصال فرمایا۔ تدفین والدگِرامی کے پہلو اَمروہہ،یوپی ہند۔ میں ہوئی۔(تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت ، ص:۱۲۶، تذکرہ مشائخِ قادریہ، ص:۲۶۴)
خدمت دین وملت:
حضرت خواجہ عبد السلام علیہ الرحمہ نےفراغت تعلیم کے بعد ایک عرصہ تک جامع مسجد تحصیل ٹھاکردوارہ اورمتفرق جگہ درس و تدریس اور امامت و خطابت کے ذریعے خدمت دین و ملت کے فرائض انجام دیئے ۔
سلسلہ نقشبندیہ :
اعلی حضرت سے عرض کیا گیا: ’’کہ ان چاروں سلاسل کے علاوہ بھی کوئی اور خاندان ہے جو ان چاروں میں سے کسی کی شاخ نہ ہو؟‘‘
تو اعلی حضرت جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:ہاں، تھے۔ اب تو بہت سے منقطع ہو گئے۔(۱) سلسلہ امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے۔(۲) حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے۔ (۳) حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے۔ (۴) حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے۔ (۵) ایک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے تھا۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ایک سلسلہ علاوہ سلسلہ نقشبندیہ کے حواریہ تھا، اس کے امام حضرت سیدی ابو بکر حوار رضی اللہ عنہ تھے، آپ کے مرید حضرت ابو محمد شبنکی اور آپ کے مرید حضرت تاج العارفین ابو الوفا رضی اللہ عنہ تھے۔ (پھر فرمایا) اللہ کو ہدایت فرماتے دیر نہیں لگتی، یہ حضرت ابوبکر حوار رضی اللہ عنہ پہلے رہزن تھے، قافلے کے قافلے تنہا لوٹا کرتے تھے۔ ایک بار ایک قافلہ اترا، آپ وہاں تشریف لے گئے، ایک خیمے کی طرف گئے اس خیمے میں عورت اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی۔ شام قریب ہے۔ اور اس جنگل میں ابوبکر حوار کا دخل ہے، ایسا نہ ہو کہ وہ آجائے، بس یہی کہنا ان کی ہدایت کا سبب بن گیا، اپنے آپ سےفرمایا:’’ابوبکر! تیری یہ حالت ہو گئی کہ اب خیموں میں عورتیں تک تجھ سے خوف کرتی ہیں؛ اور تو خدا سے نہیں ڈرتا‘‘۔ اسی وقت تائب ہوئے اور گھر لوٹ آئے، شب کو سوئے، خواب میں زیارت اقدسﷺ سے مشرف ہوئے۔ حضور اقدسﷺ کے ساتھ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی تھے، آپ نے عرض کیا، بیعت لیجیے! ارشاد فرمایا:’’تجھ سے تیرا ہمنام بیعت لے گا‘‘ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیعت لی اور اپنی کلاہ مبارک ان کے سر پر رکھی، آنکھ کھلی تو کلاہ اقدس سرپر موجود تھی۔ اس طرح یہاں سے یہ سلسلہ حواریہ آپ سے شروع ہوا۔ (الملفوظ، حصہ چہارم،ص:۱۱۔۱۲)
آپ کے خلفاء:
آپ کے خلفا اور مرید بے شمار ہیں۔ جن میں سے چند کے اسما درج ذیل ہیں:
(۱) حضرت قاری الحاج حکیم خواجہ رحیم بخش سلامی نقشبندی مجددی علیہ الرحمہ جاے وطن: کانکرکھیڑا، مرادآباد، یوپی ہند۔ آپ ایک بہت اچھے حکیم اور صوم و صلوۃ کے پابند تھے۔ آپ کا وصال مؤرخہ۱۸؍ ذوالحجہ ۱۳۸۲ھ ، ۱۳؍ مئی ۱۹۶۳ء میں ہوا۔
کانکرکھیڑا میں آپ کا مزار پاک ہے۔ جہاں آج بھی بہت سے لوگ زیارت کے لیےجاتے ہیں اور فیض پاتے ہیں۔
(۲) حضرت خواجہ عبد السلام علیہ الرحمہ کے لخت جگر حضرت مولانا صوفی الحاج محمد ابراہیم علیہ الرحمہ ہیں جو بہادر گنج شریف، مرادآباد، یوپی ہند میں آرام فرما ہیں۔ آپ کو مسائل شرعیہ پر عبور حاصل تھا اور صوم و صلوۃ کے پابند اور خدا شناس اور برگزیدہ بزرگ تھے۔(بقول مولانا اسلم نعیمی، ڈھکیاوی، مرادابادی )
(۳) حضرت مولانا قاضی زین العابدین دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔
"انوار علمائے اہل سنت سندھ” کے حوالے سے مذکور ہے: کہ حضرت مولاناقاضی زین العابدین بن حضرت حافظ غیاث الدین تارک الدنیا بن حضرت قاضی رحیم الدین، محلہ پہاڑ گنج شہر دہلی میں ۹؍ ذوالحجہ (۱۳۱۹ھ)؍(۱۹۰۱ء) کو تولد ہوئے۔
حضرت مولانا قاضی زین العابدین علیہ الرحمہ حسب دستور بوقت صبح بعد نماز فجر درس قرآن پاک فرما رہے تھے۔ کہ ناگاہ! پناہ بے کساں، واقف راہ یزدانی، غواص بحر معانی ، آیۃ من آیات ا للہ، معدن حلم وحیا، حضرت مولانا الحاج خواجہ عبدالسلام نقشبندی قدس سرہ (متوفی: ۱۹۴۹ء مدفون) بہادر گنج، سلطان پور، ٹھاکردوارہ، ضلع: مراد آباد، صوبہ یوپی انڈیا) اثناے وعظ تشریف لائے، پہلی ہی نگاہ میں متاثر اور بے قرار ہوگئے۔ بالآخر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہو کر صحبت عالیہ سے اکتساب فیض فرمانے کے بعد کمالات فنا و بقا کی دولت لایزال سے مزین ہو کر خلافت سے ممتاز و متمیز ہوئے۔ بعد حصول خلافت سلسلہ رشد و ہدایت کا آغاز ہوا۔ بہت سے طالبان صادق آپ کے مرید ہوئے۔ آپ کا معمول تھا کہ بعد نماز عشاء حلقہ میں بیٹھتے اور طالبان صادق کے قلوب کو اپنی توجۂ باطنی اور نسبت روحانی سے فیض پہنچا کر توجہ الی اللہ کی دولت سے مشرف فرماتے ۔ کیوں کہ آپ نہایت قوی نسبت رکھتے تھے جس کے باعث بہت جلد مریدین پر اس کا اثر ظاہر ہوجاتا تھا اور قلیل عرصے میں لوگ اجزاے ذکر و محویت سے سرشار ہو کر اپنی یافت و ذوق کا اظہار فرمانے لگتے تھے۔ آپ صاحب کشف و کرامات تھے پیر کامل وہ ہے جو خود مشاہدہ کرے اور دوسروں (مریدوں) کو بھی مشاہدہ کرادے۔ آپ حضرت خواجہ عبد السلام علیہ الرحمہ کے حکم پر شہر کراچی،پاکستان چلے گئے۔ (انوار علمائے اہل سنت سندھ، ص: ۲۹۵۔ ۲۹۶)
(۴)حضرت مولانامکارم علی علیہ الرحمہ۔یہ بھی بحکم حضرت خواجہ عبد السلام علیہ الرحمہ شہر کراچی،پاکستان چلے گئے۔
(۵) حضرت مولانا الحاج عبد الحمید علیہ الرحمہ پاکستان میں جلوہ گر ہیں۔اس طرح فیضان سلامی پاکستان میں بھی جاری ہے۔
(۶) استاذ الحفاظ حضرت حافظ الحاج عبد الصمد علیہ الرحمہ۔ جوڈھکیہ پیرو، مرادآباد،یوپی، ہند میں آرام فرما ہیں۔ حضرت حافظ الحاج عبد الصمد علیہ الرحمہ عرف بڑے حافظ جی ڈھکیاوی کی وہ بابرکت ذات ہے کہ جنھوں نے ہزاروں تشنگانِ علوم نبویہ کو جام علوم سے سیراب کیا۔
حضرت حافظ صاحب ایک مرتبہ صدر الافاضل کی بارگاہ میں مرید ہونے کی غرض سے گئے اور جانے کے بعد اس کا اظہار کیا تو صدر الافاضل نے ارشاد فرمایا: کہ تمہارے قریب بہادر گنج میں مولانا عبد السلام ہیں ان سے مرید ہو جاتے تو حافظ صاحب نے کہا وہ شیخ زادے ہیں اور میں کسی سید صاحب سے مرید ہونا چاہتا ہوں تو حضور صدر الافاضل نے ارشاد فرمایا: "ایک بار آپ ملاقات کرلیں۔تو حافظ الحاج عبد الصمد صاحب ٹھاکردوارہ حضرت خواجہ عبد السلام علیہ الرحمہ سے ملاقات کے لیے گئے تو حضرت خواجہ عبد السلام علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا:کہ ’’میں تو شیخ زادہ ہوں۔ آپ کو سید صاحب سے مرید ہونا ہے۔‘‘بس پھر کیا تھا کہ آپ حضرت خواجہ عبد السلام کےقدموں میں گر گئے، حضرت خواجہ عبد السلام علیہ الرحمہ نے مرید کرلیا۔ اور بعد میں خلافت سے بھی نوازا۔
اور آپ کوہمیشہ خانقاہ سلامی میں عزت و وقار سے نوازا جاتا۔
حضرت حافظ الحاج عبد الصمد علیہ الرحمہ۲۹؍ذو الحجہ (۱۴۲۷ھ)۔۹؍فروری(۲۰۰۵ء) بروز بدھ کو وصال فرماگئے۔
ایک اور نام قابلِ ذکر ہے جو حضرت مولانا خواجہ عبد السلام علیہ الرحمہ کے مرید ہیں، حضرت مولانا الحاج روشن علی علیہ الرحمہ آپ حضرت کے بہت چہیتے مرید تھے۔اور بعد میں حضرت مولانا مکارم علی علیہ الرحمہ اور حضرت صوفی الحاج ابراہیم علیہ الرحمہ نے خلافت سے نوازا۔ آپ کا دفن لن چھوڑ،شہر کراچی، پاکستان میں ہوا۔
مذکورہ بالا شخصیات کے علاوہ بھی حضرت خواجہ عبدالسلام علیہ الرحمہ کے دیگر کئی خلفا اور بھی ہیں جن کا ذکر بخوف طوالت ترک کیا جاتا ہے۔
حضور صدرالافاضل کی نظر میں:
عارف باللہ حضرت خواجہ عبد السلام علیہ الرحمہ بہت ہی سادہ لباس زیب تن فرماتے تھے۔ایک مرتبہ حضرت مولانا خواجہ عبد السلام علیہ الرحمہ جامعہ نعیمیہ مرادآباد تشریف لے گئے تو حضور صدر الافاضل حسب معمول تعظیم و تکریم بجالائے۔ حضرت مولانا خواجہ عبد السلام علیہ الرحمہ نے تھوڑی دیر قیام فرمایا اس کے بعد وہاں سے تشریف لے گئے اور حضور صدر الافاضل کا معمول تھا کہ رخصت کرنے مین گیٹ تک تشریف لاتے آپ جب حضرت کو رخصت کرکے واپس تشریف لائے تو شاگردوں نے آپ سے عرض کیا کہ حضور یہ بوڑھے شخص کون ہیں؟ اتنا بوسیدہ لباس پہنے ہوئے ہیں اور آپ ان کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں؟ حضور صدر الافاضل نے تھوڑی دیر سکوت فرماکر ارشاد فرمایا کہ ابھی تم ناسمجھ ہو۔ کچھ عرصہ بعد پھر حضرت خواجہ عبد السلام علیہ الرحمہ کا گزر جامعہ نعیمیہ مرادآباد میں ہوا اور حضور صدر الافاضل نے پھر وہی طریقہ اختیار کرتے ہوئے حضرت کو رخصت کیا۔ تو اس پر پھر شاگردوں نے معلوم کیا کہ حضور! یہ کون ہیں؟ تب حضور صدر الافاضل نے ارشاد فرمایا: کہ یہ ٹھاکردوارہ کے قطب ہیں۔ معلوم ہے، اس وقت کہاں پہنچ گئے؟ سنو! اس وقت نگینہ پہنچ گئے۔ خاموش رہو، پس شاگرد ہکابکا رہ گئے۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضور صدر الافاضل کی نظر میں حضرت خواجہ عبد السلام علیہ الرحمہ ولی کامل اور قطب تھے۔
حضرت خواجہ عبدالسلام کی علمائے کرام سے محبت:
حضرت مولانا ناظر القادری مصباحی (پرنسپل بشیر العلوم بھوج پور )نے اپنے مضمون میں رقم کیا:
’’کہ حضرت مولانا عبدالمجید ملاجی میاں علیہ الرحمہ، اللہ تعالی کےبرگزیدہ بندے،عابد شب زندہ دار، صاحب کشف و کرامت، خوگرِ حمد و نعت ، حاجت مندوں کے درماں، اور زبر دست عاشق مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم تھے۔ مدت مدید تک بھوج پور کی جامع مسجد میں امامت وخطابت کے ساتھ رشدو ہدایت کے فرائض انجام دیتے رہے، پورے علاقے میں آپ کو قبول عام کا درجہ حاصل تھا، قطب وقت سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے شیخ حضرت شاہ عباس نقشبندی امروہوی کے مرید خاص، حضور صدرالافاضل نعیم الدین مرادابادی کے ممدوح یگانہ، قطب الاقطاب حضرت مولانا عبد السلام عباسی مجددی نقشبندی بہادر گنجوی علیہ الرحمۃ والرضوان (متوفی ۱۳۶۸ھ ۔۱۹۴۹ء ) حضرت ملاجی میاں قدس سرہ سے بہت محبت فرماتے اور آپ پر حد درجہ اعتماد فرماتے بھوج پور کے ایک صاحب حضرت کے پاس اپنی بیمار بھینس کے لیے تعویذ لینے بہادر گنج شریف حاضر ہوئے، عرض مدعا کیا، تو حضرت مجددی قدس سرہ نے ارشاد فرمایا: بھوج پور میں مولانا عبد المجید کے ہوتے ہوئے تم یہاں کیوں آئے ہو؟ جاؤ حضرت سے تعویذ لینا یہ بات جہاں دونوں بزرگوں کی باہمی محبت، خلوص، جذبہ اور اعتراف حقیقت پر بین دلیل ہے۔ وہیں عصر حاضر کے بعض پیران مغاں کے لیے تازیانہ عبرت بھی ہے۔
(سہ ماہی عرفان رضا مرادآباد، اپریل،مئی، جون،۲۰۲۱ء۔ ص: ۷۳۔۷۴ )
وصال:
عارف باللہ حضرت خواجہ عبدالسلام عباسی نقشبندی مجددی علیہ الرحمۃ و الرضوان ۸۵؍ سال کی عمر میں۱۰؍ربیع الثانی (۱۳۶۸ھ۔۹)؍فروری(۱۹۴۹ء) کو اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ ہزاروں کی تعداد میں دور دراز سے یہاں تک کہ ہند و پاک سے زائرین تشریف لائے اور اپنے مرشد کامل کا آخری دیدار کرکے دل کو روشن کیا۔
آپ کے وصال پر ملال کے موقع پر اجمل العلما حضرت مفتی محمد اجمل سنبھلی علیہ الرحمہ نے یہ اشعار تحریر فرمائے۔
مَاتَ فَخْرُ الْاَوْلِیَا عَبْدُ السّلا م
قَدس اسرَاہ مَوْلی الانَام
کَانَ ذَاعلم وَ وَرع عَارِفا
خصہ الرحمٰن مَا بَین الفام
رَبَّنَا الّرضَاہ عنا دَائما
بَلْ اخص فیضا عینا بالدوام
قالا فی الملفوظ اجمل عام موت
اخلد الله فی بیت السلام
آپ کا مزار پر انوار بہادر گنج شریف، سلطان پور، ضلع مرادآباد، صوبہ یوپی انڈیا میں موجودہے۔ آج بھی ہزاروں پریشان حال مسلمان عارف باللہ حضرت خواجہ عبد السلام علیہ الرحمہ کے فیضان سے فیض یاب ہورہے ہیں۔
ازقلم: محمد نفیس القادری امجدی
مدیر اعلی: سہ ماہی عرفان رضا مرادآباد
خطیب و امام اعلی حضرت جامع مسجد منڈیا گنوں سہالی کھدر
و صدر المدرسین جامعہ قادریہ مدینۃالعلوم گلڑیا معافی، مرادآباد،یوپی