اصلاح معاشرہ مضامین و مقالات

معاشرہ اور سماج پر مہنگی شادیوں کے برے اثرات

تحریر: محمد منصور عالم نوری مصباحی
مدرس دارالعلوم عظمت غریب نواز پوسد مہاراشٹر
متوطن : بڑاپوکھر طیب پور کشنگنج ( بہار )

شادی رحمت الٰہی اور سنت رسول اکرم ﷺ ہے۔ توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رکھنے اور عالم فانی میں انسانی آبادی میں اضافہ ہو اور بہت سی بھلائیوں اور حکمتوں کے لیے قادر مطلق جل و علا نے نکاح کرنے کا حکم دیا اور ماں حوا کا نکاح حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ کرایا پھر یہ سلسلہ اولاد آدم علیہ السلام میں اب تک جاری ہے ۔مسلمانوں کے لیے نکاح و شادی کا وہی طریقہ و دستور جائز ہے جو اسے اسلام نے عطافرمایا ہے ۔اسلام ایک معتدل افراط و تفریط سے محفوظ مذہب ہے جو دین نصیحہ ہے اور خیر و خوبی سے مالامال ہے جس میں ریاء وسمعہ ، نام و نمود کی کوئی گنجائش نہیں ، آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے نہایت سادگی کے ساتھ شادیاں رچائی ہیں ان کی شادیاں سادھے انداز میں ہوتی تھیں بعض دفعہ صحابہ کرام شادیاں رچالیتے اور آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بعد میں اطلاع دیتے لیکن محبوب خدا ﷺ اس پر کچھ بھی خفگی کا اظہار نہیں فرماتے تھے بلکہ دعائیں دیتے تھے ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ عبد الرحمٰن ابن عوف رضی اللہ تعالی عنہ پر زردی کا اثر دیکھا یعنی خلوق کا رنگ ان کے بدن یا کپڑوں پر لگا دیکھا فرمایا یہ کیا ہے ؟ عرض کی میں نے ایک عورت سے نکاح کیا ہے ایک گٹھلی کے برابر سونے کے بدلے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہارے لیے مبارک کرے تم ولیمہ کرو اگرچہ ایک ہی بکری سے (بخاری شریف ، مشکوٰة شریف) اتنی سادگی کے ساتھ صحابۂ کرام کی شادیاں ہوتی تھیں لیکن آج کا ہمارا مسلم معاشرہ شادی و نکاح کے معاملہ میں اس قدر افراط کا شکار ہوچکا ہے اور معاشرہ میں ایسی ایسی مہنگی شادیاں رائج پاچکی ہیں جو اہل فہم و فراست کے لئے فکر کا باعث بن گئی ہیں۔
مہنگی شادیاں :۔ موجودہ وقت میں شادیاں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ متوسط طبقہ کو شادی کے نام سے گھبراہٹ ہو جاتی ہے ادنی طبقہ کی کیا حالت ہوتی ہوگی وہ تو اللہ عزوجل ہی بہتر جانتا ہے ۔ عصرحاضر میں خواہ لڑکے والے ہوں یا لڑکی والے شادیاں دونوں کے لیے درد سر بن گئی ہیں طرفین میں اخراجات کی بڑی لسٹ تیار ہوتی ہے ۔ اور آپس میں رائے مشورے بھی ہوتے ہیں ۔
لڑکے والوں کی مٹنگ اور پروگرام کی لسٹ
لڑکے والوں کے ذمہ داروں کی، شادی سے پہلے ایک مٹنگ ہوتی ہے جس میں کچھ اس انداز سے باتیں ہوتی ہیں ۔
” برات شان و شوکت کے ساتھ جائے جس کی دھمک پورے علاقہ میں محسوس ہو اور ولیمہ کا شاندار انتظام رہے ” جن باتوں پر زیادہ زور دی جاتی ہے ان کی قدر تفصیل سنئے اور کف افسوس ملئے ۔
(1) براتیو کی تعداد ۱۵۰ سے کم نہ ہو علاوہ قریبی خواتین (مولانی) جیسے دادی ، نانی بہن پھوپھی وغیرہ ۔(برات میں عورتوں کو بھی لے جانے کا رواج عام ہوگیا ہے) ایک شادی میں دیکھا کہ دولہا میاں نے اپنی اس دادی کو جو خود سے چل نہیں پارہی تھی اسے بھی اٹھا لایا تھا ۔

(2 ) "لڑکی والوں کی فرمائش ہے کہ دلہن کے لیے ہائی کوالیٹی کے کم ازکم پندرہ ساڑیاں ، راجستھانی گھگڑا چوندری ڈریس اور دیگر جوڑے کے ساتھ ساتھ زیورات بھی ہوں ” ۔ اس پر لڑکا والے کہتے ہیں : ہمیں اس سے بھی زیادہ کے بارے میں سوچنا ہے تاکہ کہیں سے ہمیں کم (چھوٹا) نہ آنکا جائے ۔
(3) برات کے لئے ایک جیسی کم از کم پندرہ سے بیس گاڑیاں بک کی جائیں ۔
(4) برات رات میں روانہ ہو تاکہ لائٹ کی روشنی میں برات اور شادی کا زیادہ لطف و مزہ آئے ۔
(5) جگہ جگہ پٹاخے چھوڑے جائیں ،آتش بازی کی جائے تاکہ معلوم ہو کہ کسی شہزادے کی برات آرہی ہے ۔
(6) ولیمہ کے لیے شاندار انتظام کیا جائے اور دعوت دینے میں کنجوسی نہ کی جائے۔۔ اگرچند خاص لوگوں کو دعوت دی جائے گی اور مختصر میں ولیمہ کیا جائے گا تو لوگ سوچیں گے کہ کسی یتیم کی شادی ہورہی ہے اس لئے رشتہ دار در رشتہ دار کی لسٹ بنالو اور سبھوں کو دعوت دو تاکہ کسی کو شکایت کا موقعہ نہ ملے ۔
(7) طعام ولیمہ میں کھانے پینے کا شاندار انتظام کیاجائے اور گوشت میں صرف بیل یا بھینس کے گوشت پر اکتفاء نہ کیا جائے۔ زمانہ کافی ترقی کرلیا ہے اس لیے مٹن اور چکن کا بھی بھرپور انتظام رہے تاکہ کھانے والا کہیں سے کمی محسوس نہ کرے ۔
(8)کھانا کھلانے کے لیے بڑا ہال منتخب کیا جائے یا بڑا ہال بنایا جائے اور کھانا پروسنے کے لیے میز کرسی کا انتظام ہو اور مہمانوں کو آزادی ہو کہ وہ اکیلا کھائے یا اپنے اہل وعیال کے ساتھ یعنی مرد وزن مل کر کھائے (مخلوط انداز میں) اس لئے کہ زمانہ مؤڈرن ہوچکا ہے جس کا خیال ہم ترقی پذیر لوگوں کو رکھنا ضروری ہے ۔

لڑکی والوں کی مٹنگ اور پروگرام کی لسٹ
لڑکی والوں کی بھی مٹنگ ہوتی ہے جس میں لڑکی کا باپ کہتا ہے کہ میاں میری ہزار لڑکیاں تھوڑے ہیں ایک ہی تو لڑکی ہے مجھے تو دل کھول کر خرچ کرنا ہے ۔ لڑکے والوں نے جہیز کی کوئی فرمائش نہیں کی ہے لیکن ماحول کے حساب سے جہیز تو دینا ہی ہے ۔۔۔ ایل مجلس جی بھائی جان آپ صحیح کہہ رہے ہیں ۔ کہیں سے بھی کسی طرح کی کمی نہیں ہونی چاہیے اور ہمیں کچھ چیزوں پر بھرپور دھیان دینا چاہئے مثلاً

(1) براتیوں کا شاندار استقبال کیا جائے ، ان کے بیٹھنے کے لئے عام کرسیوں کے بجائے شاندار اسپیشل کرسیوں کا انتظام کیا جائے خاطر و تواضع کا بھرپور خیال رکھا جائے اور نوشہ اور ان کے مخصوص احباب کے لیے اسٹیج آراستہ کیا جائے اور اس کو پھولوں اور لائٹوں سے آراستہ کیا جائے۔
(2) جہیز میں بائک / فور ویہلر ، باکس پلنگ ، صوفہ سیٹ ، کرسیاں ، میز ، ہیوی گودریج ، ڈریسنگ ٹیبل ،شوکیس ، فریج ،واشنگ مشین دیگر ضروری و غیر ضروری سب سامانوں کا سیٹ اور سونے ، چاندی کے زیورات اور دیگر سامان بھر پور انداز میں دینا چاہئے تاکہ ہماری بیٹی کو کہیں سے کمی کا احساس نہ ہو اور سسرال میں سر اٹھاکر جئے۔
(3) کھانوں کی دو کوالیٹی رہے گی ایک کھانا عام مہمانوں کے لیے دوسرا کھانا براتیوں کے لئے ۔ عام مہمانوں کے لیے پلاؤ ، گوشت ، پاپر سلاد وغیرہ ہوں گے ۔ براتیوں کے لیے برات کی آمد کے فورا بعد کولڈ ڈرنک پیش کیا جائے پھر ڈبہ بند ناشتہ جس میں سیب کے ٹکڑے ، انگور ، کاجو ،کشمش، بادام اور انڈے وغیرہ دسوں قسم کے آئیٹم ہوں گے وہ پیش کیا جائے اور اس کے فورًا بعد کھانا پیش کیا جائے جس میں پلاؤ ، بیل کا گوشت ، فرائی مچھلی ، فرائی چکن ، کباب ، ٹکیہ ،کلیجے ہوں گے اوردیگر ماکولات و مشروبات بھی ہوں گی اور آخر میں دھی مسٹی سے منھ کھٹا میٹھا کیا جائے الغرض براتیوں کی شاندار مہمان نوازی کی جائے کہ کھاکر عش عش کریں ۔

سیمانچل میں جانبین کی مٹنگ اور لسٹ عام طور پر مذکورہ انداز سے ہی ہوتی ہیں اور اسی کے مطابق ڈیکوریشن سے لے کر کھانے پینے تک کا انتظام ہوتا ہے ۔اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ شادیاں کتنی مہنگی ہوگئی ہیں اور جو غریب ہیں یا جس کی ایک سے زائد لڑکیاں یا بہنیں ہیں وہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی شادی کو لے کر کس قدر پریشان ہوتے ہوں گے اور اندر سے کتنا ٹوٹ رہا ہوگا اس کا احساس تو وہی کرسکتا ہے جن کی بیٹیاں یا بہنیں شادی کے دہلیز پر کھڑی ہیں ۔ نیز ان شادیوں میں کھانوں کی بربادی دیکھ کر آنکھیں خون کے آنسوں روتی ہیں اور دل تڑپ اٹھتا ہے کھانوں کی ان بربادیوں کو دیکھ کر ایک حساس دل کہہ پڑتا ہے کہ اے دانے اور اے کھانے تیرے لئے سیمانچل کے باشندے دھلی ، پنجاب ، ہریانہ ممبائی اور نہ جانے کن کن شہروں میں نوکریاں اور مزدوریاں کررہے ہیں ،اپنے گھر سے اور اپنوں سے دور رہ کر تیری خاطر ہر پریشانیاں جھیلتے ہیں لیکن یہاں تو تیری کوئی قدر نہیں ہے ۔ کھانوں کی پلیٹوں پر تو اپنی بربادی کا تماشہ دیکھ رہا ہے کہ کوئی ڈبہ بن ناشتہ صرف چکھ چھوڑ رہاہے تو کوئی پورا پلیٹ تو کوئی آدھا پلیٹ کھانا چھوڑ رہا ہے تو کوئی سالن و سبزیاں چھوڑ رہا ہے ۔۔ سن یہ تیری بربادی نہیں ۔۔ بلکہ اس کی بربادی ہے جو تیری بے قدری کررہا ہے اس لئے کہ حدیث پاک میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ ہمارے آقا سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم مکان میں تشریف لائے روٹی کا ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا اس کو لے کر پونچھا پھر کھالیا اور فرمایا عائشہ ! "اچھی چیز کی عزت کرو کہ یہ چیز جب کسی قوم سے بھاگی ہے تو لوٹ کر نہیں آئی ،، (ابن ماجہ)
مہنگی شادیوں کے برے اثرات
مسلم سماج پر مہنگی شادیوں کے بہت زیادہ برے اور منفی اثرات پڑ رہے ہیں ان میں سے کچھ کو قلمبند کررہاہوں ۔
(1) ان مہنگی شادیوں کی وجہ سے دلہا و دلھن والے سودی قرض لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔
(2) دلہا و دلھن والوں کو مجبورا زمین و جائداد فروخت کرنا پڑتا ہے ۔
(3) لوگ اپنی بیٹیوں یا بہنوں کی شادی کے لیے (اپنوں سے شرما کر یا طعنہ زنی کے خوف سے چھپ چھپا کر) اپنی زمینیں غیر مسلم ساہوکاروں کے پاس فروخت کرتے ہیں ۔
(4) ان مہنگی شادیوں کی وجہ سے وہ نوجوان بھائی جن کے کندھوں پر گھر کی ذمہ داری ہے اور بہنیں شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں یا پہنچنی والی ہیں تو وہ نوجوان بھائی جس کو پہلے اپنی شادی کرنی تھی وہ بہنوں کا گھر بسانے کے لیے اپنی جوانی قربان کردیتا ہے ۔
(5) مروجہ کثیر جہیز کے چلن یا مانگ کی وجہ سے لڑکیاں وقت پر شادی ہونے سے رہ جاتی ہیں اور عمر ڈھلنے پر وہ نہ پسندیدگی کا شکار ہوجاتی ہیں ۔
(6) مروجہ کثیر جہیز کی وجہ سے کم جہیز لانے والی دلہنوں کے ساتھ سسرال میں ناروا سلوک ہوتا ہے ،ان کے ساتھ ساس اور نندوں کی طعنہ کشی ہمیشہ جاری رہتی ہے ۔
(7) نوشہ کے حسب خواہش جہیز نہ ہونے پر رشتہ ازدواج میں دراڑ پڑنا شروع ہوجاتا ہے جس سے آئے دن اختلاف برپا ہوتا ہے اور نئی نویلی دلہن کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے ۔
(8) مہنگی شادیوں کی وجہ سے بے تحاشہ فضول خرچیاں ہورہی ہیں اور عوام فضول خرچیوں کو اپنی ضرورت سمجھ بیٹھی ہے

محترم قارئین ! سردست میں نے یہاں مہنگی شادیوں کے معاشرہ اور سماج پر پڑنے والے آٹھ برے ومنفی اثرات سرسری طور پر پیش کیا ہے اور یہ اسی میں منحصر نہیں ہیں۔ مروجہ مہنگی شادیوں کی وجہ سے ان کے علاوہ اور بھی بہت سے برے اثرات مثلاً بے حیائی ، بے پردگی ، تکبر ، حسد ، جلن ، حرص و طمع اور دوسروں کی تحقیر و تذلیل ،ریاکاری اور منافقت اور غیر شرعی امور وغیرہ سے ہمارا مسلم معاشرہ اور خاص کر سیمانچل کا مسلم معاشرہ دوچار ہے اگر ان بے راہ رویوں پراب بھی کوئی باندھ نہ باندھا گیا اور اصلاح کے لئے منصوبہ بند لائحۂ عمل تیار نہ کیا گیا تو آنے والے وقت میں یہ مہنگی و اسرافی شادیوں کا سیلاب مسلم معاشرہ کو مزید تباہ و برباد کردے گا اور مسلم معاشرہ ماڈرن معاشرہ سے جانا و پہچانا جائے گا اور نکاح جس کو سھل و سستا کر کے زنا کو مشکل بنانا چاہئے تھا آج وہ خود مشکل و مہنگا ہوکر زنا و فحاشی کو فروغ دینے میں معاون و مدد گار ثابت ہورہا ہے اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہمارا گھر یا ہمارا گاؤں ان لغویات سے محفوظ ہے تو ہمیں اس کے بارے کوئی فکر کی ضرورت نہیں ، تو وہ بھی سن لے ؂

لگے گی آگ تو آئیں گے اور بھی گھر زد میں ۔
گلی میں صرف غیروں کا مکان تھوڑے ہیں ۔

اپنے اس مختصر مضمون کو بابرکت نکاح کے تعلق سے ایک حدیث پاک اور اس کی تشریح پیش کرکے ختم کرتاہوں ۔

ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں کہ میرے سرتاج صاحب معراج صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بڑی برکت والا نکاح وہ ہے جس میں بوجھ کم ہو ( شعب الایمان باب الاقتصاد فی النفقہ) حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ اس حیث پاک کے تحت فرماتے ہیں : جس نکاح میں فریقین کا خرچ کم کرایا جائے ،مہر بھی معمولی ہو ،جہیز بھاری نہ ہو ،کوئی جانب مقروض نہ ہوجائے ،کسی طرف شرط سخت نہ ہو ، اللہ کے توکل پر لڑکی دی جائے تو وہ نکاح بڑا ہی با برکت ہے اسی میں شادی خانہ آبادی ہے ۔آج ہم حرام رسموں ، ،بیہودہ رواجوں کی وجہ سے شادی کو خانہ بربادی بلکہ خانہائے بربادی بنالیتے ہیں اللہ تعالی اس حدیث پر عمل کی توفیق دے ۔ ( مراأةالمناجیح 11/5 ماخوذ از اہل سنت ۔ کام )
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کو نہایت سادگی کے ساتھ تقریب نکاح انجام دینے کی توفیق سعید عطافرمائے آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے