ازقلم: صدام حسین قادری مصباحی دیناج پوری، مغربی بنگال
روزہ ٹوٹنے کی ان صورتوں کا بیان جن میں صرف قضا ہے
مسئلہ : یہ گمان تھا کہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی اس لئے کھایا پیا یا جماع کر لیا بعد کو معلوم ہوا کہ صبح صادق ہو چکی تھی تو روزہ نہ ہوا اور صرف قضا لازم ہے َ
مسئلہ :کھانے، پینے پر مجبور کیا گیا یعنی اکراہ شرعی پایا گیا (اکراہ شرعی کہ کوئی شخص کسی کو دھمکی دے کہ تو اگر روزہ نہ توڑے گا تو میں تجھے جان سے مار ڈالوں گا، کوئی عضو کاٹ دوں گا، سخت ماروں گا) تو صرف قضا لازم ہے َ
مسئلہ : بھول کر کھایا یا پیا یا جماع کر لیا یا نظر کرنے سے انزال ہو گیا یا احتلام ہوا یا قے ہوئی ان صورتوں میں یہ گمان کیا کہ روزہ جاتا رہا اب اس گمان پر پھر قصداً کھا یا پیا تو صرف قضا فرض ہےَ
مسئلہ : مسافر نے اقامت، حیض ونفاس والی پاک ہو گئی، پاگل کو ہوش آگیا، بیمار تھا اچھا ہو گیا، جس کا روزہ ٹوٹ گیا چاہے جبرا کسی توڑوا دیا یا غلطی سے پانی وغیرہ حلق میں چلا گیا اور اس سے روزہ ٹوٹ گیا، رات سمجھ کر سحری کھائی تھی حالانکہ صبح ہوچکی تھی، غروب سمجھ کر افطار کر لیا حالانکہ دن باقی تھا ان سب صورتوں میں جو کچھ دن باقی ہے اسے روزہ کی طرح گزارنا واجب ہے اور اس دن کی قضا بھی لازم ہے اور نابالغ جو بالغ ہوا اس پر یا کافر تھا مسلمان ہو گیا اس پر اس دن کی قضا تو واجب نہیں البتہ باقی دن روزہ دار کی طرح گزارنا انہیں بھی واجب ہے َ
مسئلہ : بچے کی دس سال ہوجائے اور اس میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو اسے روزہ رکھوا یا جائے اور نہ رکھیں تو مار کر رکھوائیں َ
مسئلہ :صبح صادق سے پہلے جماع میں مشغول تھا صبح صادق شروع ہو تے ہی فوراً جدا ہو گیا تو کچھ نہیں اور اسی حالت پر رہا تو قضا واجب ہے کفارہ نہیں َ
مسئلہ : بھول کر جماع میں مشغول ہوا یاد آنے پر فوراً الگ ہو گیا تو کچھ نہیں اور اسی حالت میں رہا تو قضا واجب ہے کفارہ نہیں َ
مسئلہ : میت کے روزے قضا ہو گئے تو اس کا ولی اس کی طرف سے فدیہ ادا کرے جب کہ میت نے وصیت کی ہو اور مال چھوڑا ہو ورنہ ولی پر ضروری نہیں کردے تو بہتر ہے َ
روزہ توڑنے کی ان صورتوں کا بیان جن میں کفارہ لازم ہے
رمضان المبارک کا روزہ قصداً توڑنے سے کفارہ لازم آتا ہے روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ لگاتار ساٹھ (60)روزے رکھے، اگر یہ نہ کر سکے تو ساٹھ (60)مسکینوں کو بھر پیٹ دونوں وقت کھانا کھلاے اور روزہ رکھنے کی صورت میں اگر بیچ میں ایک دن کا بھی روزہ چھوٹ گیا تو پھر سے ساٹھ (60)روزے رکھے پہلے کی گنتی نہیں، انسٹھ رکھ چکا ساٹھواں نہ رکھ سکا بیماری وغیرہ کسی وجہ سے تو پھر سے ساٹھ پورے لگاتار رکھے پہلے کے انسٹھ بیکار ہو گئے البتہ عورت کو اگر حیض آجائے تو حیض آنے کی وجہ سے جتنے نا غے ہو ئے یہ ناغے نہیں گنے جائیں گے یعنی پہلے کے روزے اور حیض کے بعد والے روزے دونوں مل کر ساٹھ ہو جانے سے کفارہ ادا ہو جائے گا َ
کفارہ لازم ہو نے کی شرطیں
کفارہ لازم ہونے کی چند شرطیں ہیں جب یہ شرطیں پائی جائیں گی تب کفارہ لازم ہو گا ورنہ نہیں َ
١) رمضان المبارک کے مہینے میں رمضان المبارک کا روزہ ادا کرنے کی نیت سے روزہ رکھا ٢) روزہ دار مقیم ہو مسافر نہ ہو ٣)عاقل، بالغ ہو تو اگر بچے یا پاگل نے توڑ دیا تو کفارہ نہیں ٤)رات ہی سے روزہ ئے رمضان المبارک کی نیت کی ہو تو اگر اسی روزہ کی جسے توڑا دن میں نیت کی تھی تو اس کا کفارہ نہیں َ ٥)روزہ توڑنے کے بعد کوئی ایسی بات اپنے اختیار سے نہیں پائی گئی جس بات کی وجہ سے روزہ توڑنے کی اجازت ہوتی ہے مثلاً حیض یا نفاس یا ایسی بیماری ہو گئ جس میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے تو کفارہ لازم نہیں آ ئے گا َ