تحریر: محمد معراج عالم مرکزی
( شیموگہ، کرناٹک)
ہمارے ملک ہندوستان کی بی جے پی اکثریت والی ریاست میں جب آپ کو مسلم اقلیت کے خلاف لوگوں میں زہر افشانی، مذہبی منافرت، قومی یکجہتی میں دراڑ ڈالنے کی کوشش اور بھگوا غنڈوں کے ذریعے فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول بنایا جائے اور حکومت سے بے جا مطالبات کئے جائیں۔ تو آپ سمجھ لیں کہ وہاں ریاستی اسمبلی کا انتخاب قریب تر ہے۔ جس کے لیے سیاسی راہ ہموار کی جا رہی ہے اور اپنی لیڈر شپ کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔
ریاست کرناٹک جس کی مسلم آبادی دوہزار گیارہ کی مردم شماری کے مطابق تقریباً تیرہ ١٣ فیصدی ہے، جبکہ بعض شہروں میں جیسے گلبرگہ، بیدر، ہاویری، منگلورو اور بھٹکل میں مسلم آبادی اچھی خاصی تعداد میں ہے۔ وہیں ریاست بھر میں کل ہندو آبادی ٨٤ چوراسی فیصد ہے۔ برسوں سے یہاں کی عوام اپنی اپنی تہذیب وروایات اور مذہبی ثقافت پر عمل کرنے میں اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ مگر پچھلے کئی برسوں سے بھگوا دھاری غنڈوں کے ذریعہ فرقہ پرستی کے نام پر سیاست کی روٹی سینکنے والے کچھ بی جے پی لیڈران مسلمانوں کے خلاف اکثریت کو اکسانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ ان کا مقصد حجاب کی پابندی، حلال اور جھٹکے کا گوشت، اسکولی نصاب میں بھگود گیتا کو شامل کرنا، ہندؤوں کے مذہبی میلے اور مندروں کے احاطے میں مسلم دوکانداروں پر پابندی عائد کرنا، وغیرہ جیسے مطالبات کے ذریعے مسلمانوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنا نہیں ہے۔ بلکہ ان کا مقصد مسلمانوں کے خلاف ٨٤ چوراسی فیصد اکثریت کو سماجی اور معاشی بائیکاٹ پر اکسانا ہے۔ اور اس کی آڑ میں اپنی سیاست کی روٹی سینکنی ہے۔ جبکہ ہر مذہب کا پڑھا لکھا طبقہ ان حرکتوں کو بخوبی سمجھتا ہے۔
لاؤڈ اسپیکر کے خلاف اشتعال انگیز بیان:
ابھی حالیہ تین اپریل بروز اتوار کو ممبئی میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے راج ٹھاکر ے نے دھمکی دی تھی کہ "مسجدوں میں لاؤڈ اسپیکر اتنی اونچی آواز میں کیوں استعمال ہوتے ہیں اگر اسے روکا نہ گیا تو مسجدوں کے باہر اسپیکر لگا کر ہنومان چالیسہ کیا جائے گا” اس آگ کی چنگاری اب کرناٹک میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے اشتعال انگیز بیان سے متاثر ہو کر بجرنگ دل اور سری رام سینے کے "پرمود متالک” نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں دھمکی دی ہے کہ اگر رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک مسجدوں میں لاؤڈ اسپیکر بند نہ ہوئے تو ان کی تنظیم علی الصباح لاؤڈ اسپیکر پر بھجن کرے گی۔
حلال گوشت کی جگہ جھٹکے کے گوشت کا مطالبہ:
پچھلے ایک دو ہفتہ سے بجرنگ دل، ہندو جاگرن سمیتی اور ہندو جن جاگرتی کے کارکنان مسلم دوکانداروں سے ذبح شدہ گوشت کی جگہ غیر مذبوح یعنی جھٹکے کے گوشت کے مطالبات میں سر گرم عمل ہیں۔ اور کئی جگہوں پر اس کا اثر بھی دیکھنے میں آیا ہے جیسا کہ شیموگہ ضلع کے بھدراوتی تعلق میں چند بھگوا غنڈے ایک مسلم گوشت کی دوکان میں اچانک پہنچتے ہیں اور جھٹکے کا گوشت نہ ملنے پر اپنی غنڈہ گردی پر اتر آتے ہیں۔ جبکہ اسی تعلق میں ایک مسلم چکن اسٹال میں غیر مذبوح گوشت نہ ملنے پر دوکاندار سید انصر اور ملازم محمد توصیف نامی شخص کے ساتھ بد سلوکی کا معاملہ بھی سامنے آیا۔
جبکہ ان لوگوں کی یہ تحریک صرف مرغے، بکرے، اور بیل کے گوشت تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ تمام کھانے اور استعمال کی جانے والی اشیاء یہاں تک کہ بسکٹ اور چاکلیٹ کے کور میں چھپے "حلال فوڈ” کے لیبل تک ہے۔ ان شر پسند کا کہنا ہے کہ کوئی بھی کمپنی اپنے سامان پر "حلال فوڈ” کا لیبل نہ لگائے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے ہندو جن جاگرتی تنظیم کے موہن گوڑا نامی ایک لیڈر نے اکثریتی طبقے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حلال اشیاء استعمال کرنے کا مطلب اپنے دھرم کو برھشٹ کرنا ہے۔
مذہبی میلے اور مندروں کے احاطے میں مسلم دوکانداروں پر پابندی:
امسال بجرنگ دل، ہندو جاگرن سمیتی، مندر ومذہبی تیوہار کے ٹرسٹیان و ذمہ داران اور دیگر سماجی ومذہبی تنظیموں کے کارکنان نے مل کر مسلمانوں کے خلاف جو معاشی وتجارتی بائیکاٹ کا نیا کھیل کھیلا ہے اور اس کے لیے اپنی عوام کو مستعد کیا ہے۔ یہ نہایت ہی قابل افسوس اور مسلمانوں کے لیے بڑا لمحۂ فکریہ ہے۔ اڈپی ضلع میں واقع مارگڈی مندر کے سالانہ اور روایتی میلے جس میں ہر سال تقریباً سو سے زائد مسلم دوکاندار اپنی تجارت کیا کرتے تھے۔ مگر امسال انہیں اپنی دوکان لگانے سے روک دیا گیا حتی کہ دیگر شہروں میں بھی مندر کے احاطے میں مسلمانوں کو دوکانداری کرنے سے دور رکھا گیا اور مسلمانوں کے ساتھ ایک منصوبہ بند طریقے سے تجارتی ومعاشی بائیکاٹ کیا گیا۔
اسکولی نصاب میں تبدیلی کا مطالبہ:
ان شر پسند عناصر لوگوں نے گجرات کی طرح کرناٹک کے اسکولی نصاب میں بھی مذہبی کتاب "بھگود گیتا ” کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم کرناٹک کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش نے ابھی تک اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا ہے۔ جبکہ شر پسندوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسکولی نصاب سے شیر میسور مجاہد جنگ آزادی حضرت ٹیپو سلطان کے درس کو خارج کر دیا جائے۔ اور ان کے لیے "شیر کرناٹک” کا لفظ بھی استعمال نہ کیا جائے۔ جبکہ جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف ان کا مجاہدانہ کردار سب پر عیاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو مسلم کے مابین نفرت اور دوری پیدا کرنے والے ان مطالبات کو دیکھتے ہوئے چند دن قبل کرناٹک کے تقریباً ساٹھ قلمکاروں اور دانشوروں نے "بھگود گیتا” کی جگہ حکومت سے آئین ہند کے اصول پڑھانے کامطالبہ کیا ہے اور اس کے لیے انہوں نے حکومت کو خط بھی لکھا ہے۔ اس درمیان با یوکون کی چیف "کرن مجومدار شانے ” نے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بسو راج بومئی سے اس بڑھتی مذہبی تقسیم کو حل کرنے کی گزارش کی ہے۔ انہوں نے ٹؤیٹر پر کہا ہے کہ ” اگر انفارمیشن، ٹیکنالوجی اور کاروبار تبدیلی (آئی، ٹی۔ بی، ٹی) ہی فرقہ پرست ہوجائے گا تو یہ ہماری عالیشان قیادت کو تباہ کردے گا۔
معاشرے میں حجاب کی پابندی کا اثر:
ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت زعفرانی غنڈوں کے ذریعے سب سے پہلے حجاب کا معاملہ بھی اٹھایا گیا اور ان کی پشت پناہی کرتے ہوئے غیر مسلم طلباء کے کاندھوں پر زعفرانی رومال ڈال کر ان طلبہ کے ذریعے کالج کا ماحول خراب کیا گیا اور جب معاملہ ہائی کورٹ تک جا پہنچا تو قانون کی بالادستی نے حجاب کو اسلام کا لازمی جز قرار دینے سے انکار کر دیا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حال ہی میں ایس۔ ایس۔ ایل۔ سی (سیکنڈری، اسکول، لیول، سرٹیفکیٹ) اور پی۔ یو۔ سی ( پری، یونیورسٹی، کورس) یعنی دسویں اور بارہویں کے بورڈ امتحان میں بے شمار طالبات، حجاب کی اجازت نہ ملنے پر اپنے امتحان سے کنارہ کش ہوگئیں۔ جبکہ گدگ شہر میں پانچ سینئر معلمات کو اس الزام پر نوکری سے برخواست کردیا گیا کہ ان معلمات نے امتحان گاہ میں کچھ طالبات کو اسکارف کے ساتھ امتحان دینے کی اجازت دی ہے۔