ازقلم: سعدیہ بتول اشرفی (سبا)
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
📎مشکل الفاظ کے معنی
جود: سخاوت
کرم : مہربانی
شہ : بادشاہ
بطحا : مکہ مکرمہ
مطلبِ شعر
ائے مکی شہنشاہ، ائے مکی بادشاہ آپ کی جود و سخا کا کیا کہنا آپ کے کرم و مہربانی کا کیا کہنا کہ جب کوئ منگتا آیا آپ نے عطا فرمایا
میری عزیز بہنو! آئیے ماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے ہیں کہ یا ام المؤمنین آپ نے حضور پاک ﷺ کے صبح و شام کو دیکھا ہے اندازِ لطف و کرم دیکھا ہے ہمیں بتائیے کہ ہمارے حضور کی سخاوت کا عالم کیا تھا آپ کی لطف و عطا کیسی تھی آپ کا کرم کیسا تھا
اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : "نبئ پاکﷺ تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے آپ کی سخاوت تیز آندھی سے بھی زیادہ جاری تھی آپ نے کبھی کسی سوالی کو خالی واپس نہ لوٹایا یعنی "لا ” نہیں فرمایا
کہ جاؤ میرے پاس نہیں ہے
اگر موجود ہوتا تو دے دیتے ورنہ فرماتے میرا نام لے کر جو چاہے ادھار لے لو میں قیمت چکا دوں گا۔ (شمائل ترمذی)
سبحان اللہ ! اسی مضمون کو ایک اورصحابئ رسولﷺحضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ
حضور اکرم ﷺ نے کسی سائل کے جواب میں خواہ وہ کتنی ہی بڑی چیز کا سوال کیوں نہ کرے آپ نے "لا(نہیں)” کا لفظ نہیں فرمایا
"منگتےخالی ہاتھ نہ لوٹے کتنی ملی خیرات نہ پوچھو
ان کا کرم پھر ان کا کرم ہے ان کے کرم کی بات نہ پوچھو”
(سیرت مصطفی ص ۴۶۵،شفا شریف جلد ۱ ص۶۵)
میری پیاری بہنو! آقاﷺ کا در پاک وہ در ہے جہاں سے کوئ خالی نہیں جاتا لہذا انہی کے درِ جود سے اپنی لَو لگاؤ اور جو چاۂیے انہی سے مانگو ، وہ ایسے سخی ہیں کہ ان کے در پر جتنی مرتبہ مانگو گے پاؤگے
کیوں کہ یہ
سرکار کا در ہے درِ شاہا تو نہیں ہے
جو مانگ لیا مانگ لیا ، اور بھی کچھ مانگ
اورصرف مانگنے والوں کو ہی نہیں
بلکہ بے مانگے بھی آپ نےلوگوں کو عطا فرمایا چنانچہ آپ کے بہت بڑے دشمن امیہ بن خلف کا کافر بیٹا صفوان بن امیہ جب مقام "جعرانہ” میں حاضر دربار ہوا تو آپ نے اس کو اتنی کثیر تعداد میں اونٹوں اور بکریوں کا ریوڑ عطا فرمایا کہ دو پہاڑوں کے درمیان کا میدان بھر گیا
صفوان مکہ جاکر چلا چلا کر اپنی قوم سے کہنے لگا کہ” ائے لوگو! دامن اسلام میں آجاؤ محمدﷺ اس قدر زیادہ مال عطا فرماتے ہیں کہ فقیری کا کوئ اندیشہ ہی باقی نہیں رہ جاتا ۔ اس کے بعد صفوان پھر خود بھی مسلمان ہوگئے رضی اللہ عنہ
(سیرت مصطفی ص ۴۶۵زرقانی جلد ۴ ص ۲۹۵)
"کون دیتا ہے دینے کو منہ چاۂیے
دینے والا ہے سچا ہمارا نبیﷺ
حضور اکرم ﷺ جب دیتے ہیں جب عطا فرماتے ھیں تو کیسے عطا فرماتے ہیں سبحان اللہ ! غارِ ثور میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کی مجھے سانپ نے کاٹ لیا آپ نے اپنا مبارک لعابِ دہن لگا کر زہر کے اثر کو دور فرمایا
دودھ کے ایک ہی پیالے سے ستر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سیراب فرمایا
یہ دیکھ کر بریلی کے امام پکار اٹھے
"کیوں جناب بو ہریرہ تھا وہ کیسا جام شیر
جس سے ستر صاحبوں کا دودھ سے منہ پھر گیا”
اور
” انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر
ندیاں پنج اب رحمت کی ہیں جاری واہ واہ”
سبحان اللہ انگلیوں سے پانی کے چشمے بہادئیے
اور جب حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ نکل کر کے آئ اس کو لعاب دہن لگا کر ٹھیک فرمادیا
اورصرف انسانوں ہی کو عطا نہیں فرمایا
بلکہ جس کو جو کچھ ملا انہی کے در سے ملا
چاند و سورج کو روشنی اگر ملی ہے تو انہی کے در سے ملی
دریا کو روانی اگر ملی تو انہی کے در سے ملی
پھولوں کو خوشبو ، ہواؤں کو پاکیزگی ، تاروں کو چمک ، آسمان کو بلندی ، بادشاہوں کو سلطانی الغرض جس کو جو ملا انہی کے در سے ملا
یہیں پر چڑیاں اور ہرن فریاد کریں آکیوں کہ یہ بھی جانتی ہیں کہ یہاں سے کوئ واپس لوٹایا نہیں جاتا
” ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد یہیں سے چاہتی ہے ہرنی داد
اسی در پر شتران ناشاد گلۂ رنج و عنا کرتے ہیں”
کہ یہاں پر اونٹ اپنی تکلیف بیان کرتا ہے تو اس کی تکلیف دور کردی جاتی ہے یہ وہ در ہے کہ جس نے جو مانگا پالیا
چنانچہ ایک کجھور کے تنے نے عرض کی مجھے جنت میں بو دیا جائے تو آقاﷺ نے اسے جنت میں بودیا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
اور واہ کیا جود و کرم
سبحان اللہ! کیسا کرم کہ خالقِ کائنات ارشاد فرماتا ہے
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)
بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان ۔
پیارے آقاﷺ ہم پر ایسے کریم و رحیم ہیں کہ آپ پر ہمارا مشقت میں پڑنا گراں ہے اور ہماری بھلائ کےنہایت چاہنے والے ہیں کہ دنیا میں بھی کرم فرمانے والے ہیں اور آخرت میں بھی
چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں آقا ﷺ نے قرآن پاک میں سے حضرت ابراھیم علیہ السلام کے اس قول کی تلاوت فرمائی
رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ-وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۶)
اے میرے رب! بیشک بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا تو جو میرے پیچھے چلے تو بیشک وہ میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو بیشک تو بخشنے والا مہربان ہے۔
اور وہ آیت تلاوت فرمائی جس میں حضرت عیسی علیہ السلام کا یہ قول ہے
اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۱۱۸)
اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی غلبے والا، حکمت والا ہے۔
تو حضورﷺ پر گریہ طاری ہوگیا اور اپنے دست اقدس اٹھا کر دعا کی ۔ ائے اللہ عزوجل میری امت میری امت _
اللہ پاک نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا: ائے جبرائیل! میرے محبوب کی بارگاہ میں جاؤ اور ان سے پوچھو (حالانکہ تمہارا رب خوب جانتا ہےمگر ان سے پوچھو) کہ انہیں کیا چیز رلارہی ھے ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام آقاﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور پوچھا تو انہیں آقاﷺ نے اپنی عرض معروض کی خبر دی ۔
اللہ پاک نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا: تم میرے حبیبﷺ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ ” آپ کی امت کی بخشش کے معاملے میں ہم آپ کو راضی کردیں گے اور آپ کو غمگین نہ کریں گے ۔
( تفسیر صراط الجنان،مسلم شریف ، کتاب الایمان)
سبحان اللہ
عزیز بہنو! نبئ کریم ﷺ کے جود و سخا کے بے شمار واقعات ہیں ایک اور جھلک ملاحظہ فرمائیں
ایک مرتبہ حضور پاکﷺ کے دربار میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ قرضہ بہت زیادہ ہوگیا ہے آپ کچھ عطا فرمائیے آقاﷺ کے قریب میں سونے اور چاندی کی ڈھیری لگی ہوئ تھی حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ یہ سونا اور چاندی موجود ہیں چاہیں تو لے لیں نبئ کریمﷺ کے اس فرمان کے بعد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر کو بچھایا پھر اس کے اندر سونا چاندی اٹھا آاٹھا کر رکھنے لگے یہاں تک کہ وہ ایک بہت بھاری گھٹری بن گئ حدیث پاک میں آیا کہ جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ اٹھانے لگے تو وہ اتنی وزنی تھی کہ آپ اس کو اٹھا نہیں سکے
پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نےکچھ سونا چاندی کو گھٹری میں سے نکال دیا پھر اٹھایا تو بامشقت اٹھائ گئ مشکل سے اٹھائ گئ پھر آپ نے اپنا قرض اس سے ادا فرمایا
سبحان اللہ!
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی پاک ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سوال کیا تو آپ نے اس کو نصف وسق یعنی تیس صاع عطا فرمائے
ایک اور شخص نے ایک آکر تقاضہ کیا آپ نے اس کو ایک وسق یعنی ساٹھ صاع دئیے اور فرمایا : نصف تیرے قرضے میں اور نصف تجھ کو بخشش میں __
سبحان اللہ سبحان اللہ!
جو گدا آگیا لے کر گیا باڑا تیرا
ہر گھڑی فیض سخاوت پہ ھے دریا تیرا
رشک حاتم ہوا جو پاگیا ٹکڑا تیرا
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا