میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا اداب
نثار تیری چہل پہل پر ہزاروں عیدیں ربیع الاول سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں
سب سے پہلے تو میری طرف سے تمام اہل ایمان مسلمانوں اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو جشن عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی بہت بہت مبارک ہو اس سے پہلے کہ ہم سرکار علیہ وآلیہ وسلم کی آمد کے بارے میں کچھ پڑھیں میں سمجھتا ہوں کہ ہر اہل ایمان مسلمان ، ہر عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اور ہر شخص کو یہ علم ہونا چاہئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی پیدائش کب ہوئی اور ان کے خاندان میں کون کون لوگ اور کتنے کتنے لوگ یعنی رشتہ دار موجود تھے ان باتوں کا علم رکھنا ہمارے لئے اتنا ہی ضروری ہے جیسے ہم اپنے خاندان یا رشتہ داروں کے بارے میں علم رکھتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سرکار مدینه صلی الله علیه وآله وسلم 21 اپریل 571 عیسوی بمطابق 12 ربیع الاول بروز پیر صبح 4.45 پر مکه مکرمه میں پیدا هوئے آپ صلی الله علیه وسلم کے والد کا نام عبدالله اور والده کا نام آمنه تھا , دادا کا نام عبدالمطلب اور دادی کا نام فاطمه بنت عامر تھا ,نانا کا نام وهاب اور نانی کا نام بررا تھا , آپ صلی الله علیه وسلم کی ازواج مطھرات کی کل تعداد 11 تھی جن سے 3 شهزادے اور 4 شهزادیاں تھیں.آپ صلی الله علیه وآله وسلم کے 14 چچا 6 پهوپهیاں,6 دودھ شریک بھائی جبکه 3 دودھ شریک بهنیں تھیں ,3 داماد , 5 نواسےاور 3 نواسیاں تھیں جبکه 4 مؤذن , 9 پهرےدار اور 40 غلام تھے آپ صلی الله علیه وآله وسلم کی زندگی 22330 دن کم و بیش اور عمر 63 سال 04 دن تھی آپ صلی الله علیه وآله وسلم کی رسالت کا عرصه 8156 دن یعنی 23 سال کم و بیش رها. یه هے میرے اور آپ کے سرکار مدینه راحت قلب وسینه معطر معطر پسینه حضرت محمد مصطفی صلی الله علیه وآله وسلم کی زندگی اور آپ صلی الله علیه وسلم کے آباؤاجداد اور قریبی رشته داروں کے بارے میں وه معلومات جس کا علم همیں ,همارے دوستوں , همارے رشته داروں, همارے بچوں اور همارے تمام عزیز و اقارب کو مسلمان اور آپ صلی الله علیه وآله وسلم کے امتی هونے کے ناطے هونی چاهئیے .
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ نے اِنسان کی جسمانی اور روحانی ضروریات کے مطابق جہاں ایک طرف اُس کے مادّی اور جسمانی ضروریات کی تکمیل کا اہتمام کیا وہیں زندگی گزارنے کی خاطر اُسے ایسی ہدایت و رہنمائی سے بھی سرفراز فرمایا جس سے وہ اپنی اَخلاقی و رُوحانی زندگی کے تقاضوں سے اپنی زندگی گزار سکے۔ ہدایت کا وہ نورانی و رُوحانی سفر جس کی اِبتداء بنی نوع انسان کے جد اَمجد حضر ت آدم علیہ السلام کی آمد سےشروع ہوئی، یکے بعد دیگرے مختلف انبیاء کرام علیھم السلام کے زمانوں سے گزرتا ہوا بھٹکی ہوئی نسلِ انسانی کو راہِ ہدایت سے ہم کنار کرتا رہا۔ لیکن گمراہی و ضلالت کے گہرے اندھیروں میں تاریخِ انسانی پر ایک ایسا وقت بھی آیا جب تہذیب و تمدن کا نام بھی باقی نہ رہا اور ظلم و بربریت کے شکنجوں میں جکڑی اِنسانیت شہنشاہیت اور جابرانہ آمریت کے دو پاٹوں کے درمیان بری طرح پسنے لگی۔ جب تاریخِ انسانی کی طویل ترین رات اپنی ہیبت کی انتہا کو پہنچ گئی تو قانونِ قدرت کے مطابق ظلمتِ شب کے دامن سے ایک ایسی صبحِ درخشاں طلوع ہوئی جو قیامت تک کے لیے غیر فانی اور سرمدی اُجالوں کی نقیب بن گئی۔ مقدس سرزمین فضائیں نعرۂ توحید کی صداؤں سے گونجنے لگیں، وادیء مکہ میں اس ہستی کا ظہور ہوا جس کے لیے چشمِ فلک ابتدا سے منتظر تھی اور روحِ عصر جس کے نظارے کے لیے بے قرار تھی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سرورِ کائنات ﷺ کی ذاتِ اقدس نے انسانی تہذیب و تمدن کے بے جان جسم میں وہ روح پھونک دی جس سے تاریخ انسانی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا
میلادِ مصطفیٰ ﷺ کی اس پہلی صبح سےاب تک کم و بیش ساڑھے چودھا صدیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن آج بھی جب اس عظیم ہستی کے ولادت کا مہینہ اور دن آتا ہے تو عاشقان رسولﷺ کے دلوں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور وہ جھوم جھوم کر اس دن کو اپنی استطاعت کے مطابق بھرپور طریقے سے منانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے حضورﷺ کی شان اور عظمت کو قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ تعالیٰ کچھ اس طرح بھی بیان کرتا ہے جیسے سورہ العمران کی آیت 164 میں فرمایا کہ :
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(164)
ترجمعہ کنزالایمان:
بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمان پر کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ربیع الاول کے معنی پہلی بہار کے ہیں اور اگر دیکھا جائے تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی ولادت باسعادت مسلمانوں کے لئے پہلی بہار ہی کی طرح تھی ربیع الاول ہمارے اسلامی سال تیسرا قمری سال ہے ہجری سال کا ایک اہم سنگِ میل، اسلامی تاریخ میں نمایاں مقام اور کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ماہِ مبارک سرکارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی ولادت باسعادت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی تشریف آوری کے حوالے سے ماہ و سال کی پوری تاریخ میں ایک منفرد حوالہ رکھتا ہے۔ ہمارے یہاں اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ ربیع الاول میں اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی پیدائش ہوئی تو اس میں خوشی منانے کی کونسی بات ہے ( نعوذ باللہ ظالم )۔لیکن روایتوں سے ثابت ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پیدائش کی خوشی منانے والوں پر اللہ تعالی کس طرح مہربان ہوتا ہے حضرت عروہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی جسے اس نے آزاد کر دیا تھا ۔اُس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا۔ جب ابو لہب مر گیا تو اُس کے اہلِ خانہ میں سے کسی کے خواب میں وہ نہایت بری حالت میں دکھایا گیا۔ اس (دیکھنے والے) نے اُس سے پوچھا: تمہارا حال کیا ہوا؟ ابو لہب نے کہا: میں بہت سخت عذاب میں ہوں۔ اِس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا۔ البتہ مجھے (ایک عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔
اِسے امام بخاری، عبد الرزاق اور مروزی نے روایت کیا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اسی حدیث کے متعلق حافظ شمس الدین محمد بن عبد اللہ الجزری اپنی تصنیف عرف التعریف بالمولد الشریف میں لکھتے ہیں: ابولہب کو مرنے کے بعد خواب میں دیکھا گیا تو اس سے پوچھا گیا: اب تیرا کیا حال ہے؟ کہنے لگا: آگ میں جل رہا ہوں، تاہم ہر پیر کے دن میرے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ اُنگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ (ہر پیر کو) میری ان دو انگلیوں کے درمیان سے پانی (کا چشمہ) نکلتا ہے جسے میں پی لیتا ہوں اور یہ تخفیفِ عذاب میرے لیے اس وجہ سے ہے کہ میں نے ثویبہ کو آزاد کیا تھا جب اس نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوش خبری دی اورثوبیہ وہ تھی جس نے آپ ﷺ کو دودھ بھی پلایا تھا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ ابو لہب جس کی مذمت اور عذاب الٰہی پر قرآن مجید میں مکمل سورہ یعنی سورہ الہب نازل ہوئی لیکن اس کے عذاب میں بھی پیر کے دن صرف اس لئیے تخفیف کردی جاتی کہ اس نے اس لونڈی ثوبیہ کو آزاد کیا تھا جس نے ابو لہب کو حضورﷺ کے ولادت کی خوشخبری سنائی تھی تو اللہ تعالیٰ جب ایسے انسان کو اپنے حبیب کریمﷺ کے ولادت کی خوشخبری سننے اور لونڈی کو آزاد کرنے پر اپنا کرم نازل فرماتا ہے تو جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتے ہیں ؟ خدا کی قسم! میرے نزدیک اللہ تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے حبیب مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت میں داخل فرمائے گا۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں الحمدﷲ 12ربیع الاول مسلمانوں کے لیے عیدوں کی بھی عید ہے، یقیناً حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم جہاں میں شاہِ بحر و بر بن کر جلوہ گر نہ ہوتے تو کوئی عید، عید ہوتی، نہ کوئی شب، شب برأت، بلکہ کون و مکان کی تمام تر رونق شان اس جانِ جہان محبوب رحمٰن صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کی دُھول کا صدقہ ہے محترم پڑھنے والوں اگر ہوسکے تو 12 ربیع الاول کے دن روزہ رکھ لیجئے اور یا پھر اس کے آگے پیچھے آنے والی پیر کے دن روزہ رکھلیجئے کہ آپ علیہ وسلم پیر کو روزہ رکھ کر اپنی ولادت کا دن مناتے تھے حضرت سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی بارگاہ میں پیر کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ علیہ وسلم نے کئی وجوہات بیان فرمائی جن میں ایک وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ” اس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی”
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس سے یہ ثابت ہوا کہ جشن عید میلاد النبی انتہائی عزت و احترام کے ساتھ اور پورے جوش و خروش کے ساتھ منانا چاہیئے اب یہاں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہمارے یہاں جب بھی کوئی دن یا تہوار منایا جاتا ہے تو وہاں لوگ اس کے شرعی معاملات بھول کر صرف دنیاوی معاملات کے حساب سے اس دن کو مناتے ہیں لہذہ جشن عید میلاد النبی مناتے وقت چند احتیاط بھی بہت ضروری ہیں جیسے آپ کی وجہ سے کسی کو زحمت نہ ہو اور انسانیت کا احترام قائم و دائم رہے سڑک پر جلوس کی شکل میں گزرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ اسپیکر کی آواز آہستہ ہو کہ کوئی بوڑھا ، بیمار ، بچہ یا سویا ہوا شخص آپ کی وجہ سے پریشان نہ ہو ورنہ آپ کی ساری محنت شرعی طور پر رائیگاں چلی جائے گی اسی طرح سڑکوں کو سجانے کے لئے ایسا کوئی کام نہ کریں کہ ٹریفک متاثر ہو یا گزرنے والوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے ۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں اسی طرح
چراغاں دیکھنے کے لئے عورتوں کا بے پردہ مردوں کے بیچ نکلنا شرعی اعتبار سے ناجائز و حرام ہے اور مردوں کے درمیاں گزرنا انتہائی شرم ناک عمل ہے بلکل اسی طرح مساجد ، گھروں اور سڑکوں کی سجاوٹ کے لئے بجلی کی چوری بھی ناجائز و حرام ہے اس کے لئے بجلی فراہم کرنے والے محکمہ سے بات کرکے جائز طریقے سے چراغاں کیجئے تاکہ آپ کی خوشی بھی جائز ہوجائے جلوس کے دوران نماز کے وقت کا خاص خیال رکھیں اور کوشش کریں کہ باوضو رہیں تاکہ بوقت نماز کہیں پر بھی نماز ادا ہوسکے ۔ کوشش کریں کہ جلوس میں گھوڑا گاڑی یا اونٹ گاڑی کا استعمال نہ ہو کیوں کہ ان جانوروں کی پیشاب اور لید سے لوگوں کے کپڑے ناپاک ہونے کا اندیشہ رہتا ہے اسی طرح جب کوئی چیز تقسیم کرنا ہو یعنی پھل فروٹ وغیرہ تو اچھالنے اور پھینکنے سے گریز کیجئے بلکہ لوگوں کے ہاتھوں میں دیجئے تاکہ کھانے پینے کی اشیاء کی بےحرمتی نہ ہو اسی طرح زور و شور سے نعرہ بازی آپ کے جلوس کو منتشر کرسکتی ہے لہذہ امن و امان کے ساتھ رہنے میں ہی ہماری بقا بھی ہے اور ہم اجر و ثواب کے مستحق بھی ہوں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کے شکر بجا لانے کی تلقین ہمیں قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں کئی جگہوں پر ملتی ہیں اور اہل ایمان مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی آمد اور ان کا آخری نبی بن کر دنیا میں تشریف لانا ایک نعمت سے کیا کم ہے جب اللہ تعالیٰ ہمیں کسی نعمت سے نوازتا ہے تو ہم خوشی مناتے ہیں جس کی جتنی استطاعت ہوتی ہے وہ اس طرح اپنی خوشی کا اظہار کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ یونس کی آیت 58 میں ارشاد فرمایا کہ
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-
ترجمعہ کنزالایمان:
تم فرماؤ اللّٰہ ہی کے فضل اوراسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا نہ صرف ہمیں شکر ادا کرنا چاہئے بلکہ اس کی خوشی بھی منانی چاہئے اور یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ اللہ رب العزت کا حکم بھی ہے جیسے قرآن مجید کی سورہ الضحی آیت 11 میں ارشاد ہوا کہ
وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ(11)
ترجمعہ کنزالایمان:
اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم اللّٰہ تَعَالٰی کی عظیم ترین نعمت ہیں اور نعمتِ الٰہی کا چرچا کرنا حکمِ خداوندی ہے۔ لہٰذا مسلمان حبیبِ اکرم، نورِ مُجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کو نعمتِ الٰہی سمجھتے ہوئے محفلِ میلاد کی صورت میں اسکا چرچا کرتے ہیں جگہ جگہ نعت خوانی کی محافلیں منعقد کی جاتی ہیں اورمختلف محافلوں میں مستند علماء کرام سرکار علیہ وسلم کی شان و عظمت کا بیان کرتے ہیں اس کے علاوہ اپنے گھروں مساجدوں سڑکوں اور راستوں کو خوب سجاتے ہیں اور اپنے اپنے شہروں میں جلوس کی شکل میں نعتیہ کلام کی صدائوں کے ساتھ رواں دواں ہوتے ہیں اور جگہ جگہ نزرونیاز کا اہتمام کیا جاتا ہے یہ سب کچھ صرف اور صرف سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں ہوتا ہے اور یہ کام صرف عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہی کرسکتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جتنا ہوسکے 12 ربیع الاول تک درود پاک پڑھکر جمع کیجئے قران مجید کے ختم کیجئے اور پھر عید میلاد النبی کے دن اپنے آقا و مولا مدنی تاجدار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیجئے اور ہھر دیکھئے کہ آپ کی زندگی میں کتنی خوشیاں اور کتنی بہاریں چھما چھم برسیں گی کیوں کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا ارشاد عالیشان ہے کہ ” تمہارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک میں تمہاری ماں باپ جان و مال اولاد یعنی ہر شہ سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں "۔
تو پھر ایسی ہستی کی آمد پر خوشی مناکر ہم اپنا ایمان بھی مکمل کرلیں اور ہماری رب تعالی کی سب سے بڑی نعمت یعنی آمد سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم خوشی مناکر اپنے رب کو بھی راضی کرلیں امام اہلسنت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے ایک شاہکار کلام لکھا جس ایک شعر ہے کہ
” فرش والے تیری شوکت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرہ تیرا "
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پہلے میں آپ لوگوں کو اس شعر میں موجود مشکل الفاظ کے معنی بتادوں یعنی
فرش والے ۔۔۔زمین والے
شوکت ۔۔۔مرتبہ رعب
علو ۔۔۔۔۔ بلندی
خسروا ۔۔۔۔شاہنہ خوبصورت
عرش ۔۔۔۔۔ آسمان پر واقع بلند مقام
پھریرہ ۔۔۔۔جھنڈہ
یعنی میرے امام فرماتے ہیں کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کی بلندی کا زمین والوں کو کیا خبر ان فرش والوں کو کیا خبر کہ آپ علیہ وسلم کی شان و عظمت کیا ہے اللہ تعالی خود فرماتا ہے کہ اے حبیب جہاں اور جب میرا ذکر ہوگا وہاں تیرا ذکر ہوگا اور اللہ تبارک و تعالی کا ذکر زمین پر بھی ہوتا ہے اور اسمانوں پر بھی یعنی عرش پر بھی تو فرش پر بھی تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا ذکر بھی ہر جگہ موجود ہے بلکہ جنت میں بھی آپ علیہ وسلم کے نام کا بول بالا ہے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک بڑی جماعت کے ساتھ تین جھنڈے لیکر زمین پر اترے تھے ایک جھنڈا خانہ کعبہ کی چھت پر نصب کیا دوسرا جھنڈا آقا علیہ وسلم کی ولادت کدے یعنی خانہ اقدس پر اور تیسرا جھنڈا بیت المعمور پر نصب کیا بیت المعمور عین خانہ کعبہ کی سیدھ پر واقع ہے جو فرشتوں کا خانہ کعبہ ہے اور یہ بات ” کتب سیر” میں موجود ہے کتب سیر کسے کہتے ہیں وہ تمام کتابیں جو سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی حیات طیبہ پر لکھی گئیں ہوں میلاد النبی ایک تہوار یا خوشی کا دن ہے جو دنیا بھر میں مسلمان مناتے ہیں، یہ دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کی مناسبت سے منایا جاتا ہے۔ ویسے تو میلاد النبی اور محافلِ نعت کا انعقاد پورا سال ہی جاری رہتا ہے لیکن خصوصاّ ماہِ ربیع الاول میں عید میلاد النبیﷺ کا تہوار پوری مذہبی عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بارہ ربیع الاول کو تمام اسلامی ممالک میں سرکاری طور پر عام تعطیل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، کوریا، جاپان اور دیگر غیر اسلامی ممالک میں بھی مسلمان کثرت سے میلادالنبی اور نعت خوانی کی محافل منعقد کرتے ہیں۔جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعات کی تاریخی خوشی میں مسرت و شادمانی کا اظہار ہے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل مسلمانوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام جیسے اَہم فرائض کی رغبت دلاتا ہے اور قلب و نظر میں ذوق و شوق کی فضاء ہموار کرتا ہے، صلوۃ و سلام بذات خود شریعت میں بے پناہ نوازشات و برکات کا باعث ہے۔ اس لیے جمہور اُمت نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنعقاد مستحسن سمجھا۔سیرتِ طیبہ کی اَہمیت اُجاگر کرنے اور جذبۂ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ کے لیے محفلِ میلاد کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اِسی لیے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فضائل، شمائل، خصائل اور معجزاتِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ اور اُسوۂ حسنہ کا بیان ہوتا ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑ ھنے والوں ہمیں ایک اہل ایمان مسلمان اور سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہونے کے ناطے ہر سال سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی ولادت کا جشن بھرپور طریقے سے منانا چاہیئے اور اپنی خوشی کا اظہار بلکل اسی طرح اور اسی انداز سے کرنا چاہیئے جیسے صحابہ کرام انبیاء کرام اور خود اللہ تعالی کی ذات بابرکت نے اظہار فرمایا ہم فی زمانہ گناہوں کے بڑے گہرے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ہوسکتا ہے کہ ہمیں بھی اس خوشی منانے کے طفیل بروز محشر ان گناہوں سے نجات مل جائے ان شاء اللہ
ہر ابتدا سے پہلے ہر انتہا کے بعد ذات نبیﷺ بلند ہے ذات خدا کے بعد
دنیا میں جنتے بھی لوگ ہیں احترام کے قابل
میں سبھی کو مانتا ہوں مگر مصطفیﷺ کے بعد
تحریر: یوسف میاں برکاتی