تحریر: محمد مجیب احمد فیضی بلرام پوری
استاذ/دارالعلوم محبوبیہ رموا پور کلاں اترولہ بلرام پور۔رابطہ: ۸۱۱۵۷۷۵۹۳۲
email:faizimujeeb@mail.com
رمضان الکریم یہ اسلامی سال کا نوواں مہینہ ہے،جو شعبان اور شوال کے بیچ میں واقع ہے۔اس ماہ مبارک میں نیکیوں کا ثواب ستر گنا بڑھ جاتا ہے۔ غیر رمضان میں قرآن مجید کے ایک حرف پڑھنے پر دس نیکی اور رمضان شریف میں پڑھنے پر سات سو نیکی لکھی جاتی ہے۔
چنانچہ امہات المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ خود کہتی ہیں: کہ حضور اکرم،نور مجسم،سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم "جتنا ماہ شعبان کے ایام گننےکا اہتمام فرماتے،اتنا کسی دوسرے مہینےکا نہیں،پھررمضان المبارک کاچاند دیکھ کرروزہ رکھتےاور اگر مطلع ابرآلود
ہوتا تو ۳۰/ کی گنتی مکمل کرلیتے”
(ابوداؤد شریف ،ج /۱ مشکوۃ المصابیح)
آپ خود غور کریں! تمام نبیوں اور رسولوں کے سردار اگر کسی مہینے کا انتظار کریں تو آپ خود اندازہ لگائیے کہ وہ ماہ کتنا اہم، مقدس اورمہتم باالشان ہوگا،سبحان اللہ ! رمضان المبارک کی عظمت ورفعت کاکیاکہنا جس کی رفعت کسی بھی اہل علم پر مخفی نہیں۔
اس ماہ میں خیر وبرکت کا اثر تو دیکھئے!صحابئ رسول حضرت ابوہریرۃ روایت کرتے ہیں :کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"جب رمضان المبارک کا مہینہ داخل ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے
ہیں اور سارے شرکش شیاطین واجناء
لوہے کی مضبوط زنجیروں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں”۔ ( بخاری ومسلم)
مذکورہ حدیث مبارکہ ہی سے آپ اس مہینہ کی عظمتوں کو بحسن وخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اور کسی مہینے کے متعلق یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اس ماہ میں شرکش شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں مگر قربان جائیے!!شہر اللہ پر کہ اس ماہ میں سارے شرکش اجناء اور شیاطین کی عقلیں ،ان کی شرارتیں ٹھکانے پر آجاتی ہیں۔
مسلمانان عالم اس ماہ مبین میں تیس روزہ رکھ کر ،کثرت سے اپنے خالق ومالک کی عبادت کرکے اس کی بارگاہ رحمت میں اس ماہ مبین کو وسیلہ بناکر اپنے چھوٹے بڑے تمام تر گناہوں کی رب کے حضور معافی مانگتے ہیں، رب ذوالجلال اس ماہ مقدس کے صدقے میں ان کے سبھی جائز اعمال کو اپنی بارگاہ میں قبول فرماکر انہیں بخش دیتا ہے۔اور وہ سب قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں،دیگر اعمال خیر کرتے ہیں، اور رب کے فضل سےاس کی عطا کردہ نعمتیں بھی اس کے حاجت مند بندوں میں خوب خوب لٹا کر مالی تعاون پیش کرتے ہیں۔ غریبوں، بیواؤں ،یتموں، بے سہاروں ،کمزوروں ،قلاشوں اور مجبوروں کی کما حقہ دیکھ بھال کرکے ان کی پریشانیوں کو دور کرکے عند اللہ ماجور ہوتے ہیں۔
اس پاک مہینہ کو حدیث نبوی کی ضوبار کرن میں اللہ جل مجدہ الکریم کا مہینہ کہا گیا ہے۔ چنانچہ ایک مقام پرحضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے”جس ماہ رواں میں ہم اور آپ ہیں وہ ماہ” ماہ صیام ہے” اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس ماہ کو (رمضان) احکم الحاکمین کا مہینہ فرمایا وہ بھلائیوں کا مہینہ ہے طلب رحمت ومغفرت اور نیران سے آزادی کا مہینہ ہے۔
یہ ماہ مقدس تین عشروں پر مشتمل ہوتا ہے، پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت، اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کاہوتا ہے۔
رمضان المبارک کے پہلے دس ایام میں اور دنوں کے بہ نسبت رب تعالی اپنے بندوں پر زیادہ رحم وکرم فرماتا ہے اس لئے اس عشرۂ مبارکہ میں رب کی رحمت خوب خوب تلاش کرو!
کبھی کلمۂ طیبہ پڑھ کر اس کی رحمت تلاش کرو! تو کبھی ڈھائی پرسنڈز مال دےکر(زکوۃ) ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرکے اس کی رحمت تلاش کرو! اور ایسے ہی اذان سن کر نماز کے لئے مسجد جاکر اس کی رحمت تلاش کرو!
حالت صوم میں اپنی نفسانی خواہشات کو مار کر رب کی رحمت تلاش کرو!جب ایک بندۂ مومن صدائے توحید کے بعد نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد کا رخ کرتا ہے،بڑا گنہ گار ،عصیاں شعار ہے، بڑا سیاہ کار ہے،ایک چھوٹی سی دعا پڑھ کر مسجد میں اپنے قدم کو رکھتا ہے،
اے میرے مالک !تو میرے لئے اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دے! اپنے عنایتوں کے دروازے کھول دے! اے مولی !آج پاپی تیرے دروازے پر آگیا ہےاسکے لئے اپنی عطا،بخشش، اور مغفرت کے دروازے کھول دے! تو اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے ایک بڑا پیارا سا جواب رحمت ملتا ہے،
اے میرے رحمتوں ،برکتوں،عنایتوں ،
بخششوں کے متلاشی میرے بندے!!! تو گنہگار ہے گنہ گار سہی،پاپی ہے پاپی سہی،عصیاں شعار ہے کوئی بات نہیں، مگر سن!!!
آج تو میری بارگاہ میں آیا ہے ،
میرے گھر یعنی( مسجد )
کا پھاٹک اگر چہ بند رہے مگر میری رحمتوں کا دروازہ، میری عنایتوں کا دروازہ میری بخششوں کا دروازہ تو ہمیشہ ہی کھلا رہتا ہے۔
(شعر)
ہم تومائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے کوئی رہ رو منزل ہی نہیں
۔۔۔اس ماہ میں گناہوں کی بخشش۔۔۔
نبی کے ایک بڑے پیارے اورچہیتےصحابی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: کہ سرکار دوجہاں،فخر زمین وزماں نے ارشاد فرمایا :کہ "جو شخص ایمان اور طلب ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے،اور جو شخص ایمان وخلوص کے ساتھ رمضان میں عبادت کرے اس کے گزشتہ معاصی معاف کردئیے جائیں گے، اسی طرح اگر کوئی شخص ایمان وخلوص کے ساتھ شب قدر میں مصروف عبادت ہو تو اللہ اس کے بھی گناہ معاف فرمادیتا ہے۔” (بخاری شریف ج /۱)
اس حدیث پاک میں اس بات کی جانب آپ کو راستہ دکھایا گیا ہے کہ خلوص بہت بڑی چیز ہے اور امور دینیہ جس کےکرنے میں خلوص نہیں اس پر ثواب کی کوئی امید نہیں
اس لئے مسلمانوں!دین کے ہر کام میں خلوص للہیت پیدا کرو راتوں کو تراویح اداکرو اور اس ماہ مبین میں زیادہ تراعمال صالحہ کرو تاکہ محشر میں شرمندگی نہ کرنا پڑے۔اور اس بابرکت ماہ کی خوب خوب احترام کرو!
برگ حنا پہ لکھتا ہوں میں دردل کی بات
شاید کی رفتہ رفتہ لگے دل ربا کے ہاتھ
۔۔قرآن اور روزہ دونوں شفارشی ہوں گے۔۔
حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت ہے: کہتے ہیں :کہ حضور تاجدار مدینہ سرورقلب وسینہ نے ارشاد فرمایا :کہ "روزہ دار کے لئے روزہ اور قرآن کریم دونوں رب کی بارگاہ میں شفارش کریں گے ،روزہ عرض کرےگا:اے بارالہ!!میں نے دن میں اسے کھانے اور خواہشات سے روکے رکھا،لہذا اس کے بارے میں میری شفارش قبول فرماء اور قرآن عرض کرے گا:اے پروردگار!!میں نے اسے رات کو سونے سے روکے رکھا،اس لئے اس کے حق میں میری شفارش قبول فرماء،چنانچہ ان دونوں کی شفارشیں رب کے حضور قبول کی جائیں گی۔”
( مسند احمد بن حنبل ) مشکاۃ المصابیح
دیکھ لیجئیے!یہ حدیث مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ روزہ داروں کی شفارش "روزہ "اور قرآن” رب کے حضور کریں گے ،لیکن افسوس!کہ آج ہمارے دلوں میں دین کی محبت کم اور دنیا کی محبت زیادہ ہے۔ہم نے اپنے دین کو دنیا کے قلیل متاع کے عوض فروخت کردیا ہے۔ہمارے دینداری پر ہماری دنیا غالب ہے ۔ نہ ہم قاعدے سے شریعت مصطفوی کے مطابق روزہ ہی رکھتے ہیں اور نہ قرآن کی تلاوت بلکہ قرآن تو طاق بعض گھروں میں فقط زینت کے لئے ہوتا ہے یا پھر قسم کھلانے کے لئے یا کسی کا اپنے قریبی رشتہ داروں میں انتقال ہوجائے تو دل نخواستہ پڑھنے کے لئے کاش!معاملہ برعکس ہوتا،ہم قرآن کو دل سے پڑھے ہوتے ۔رہ گئی بات روزہ رکھنے کی تو اولا! ہم روزہ بہت ہی کم لوگ رکھتے ہیں اور اس میں بھی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صحیح معنوں میں اپنے روزوں کی ازروئے شرع حفاظت نہیں کر پاتے۔اور کچھ رکھتے بھی ہیں توخلوص مفقود ہوتا ہےآج ہمارا آپ کا معاملہ یہ ہے کہ روزہ رکھنے کے باوجود بھی ہم اپنی جہالت بے حیائی سے بھی باز نہیں آتے ،جبکہ سب سے زیادہ اہم ایک روزہ دار کے لئے اس کے زبان کی حفاظت ہے، چنانچہ
رب کےمحبوب دانائے غیوب احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "تم میں سے جس کا کسی دن روزہ ہوتو نہ بےحیائی کی بات کرے، اور نہ جہالت کا ثبوت دے،اور اگرکوئی جاہلانہ طور پر اس پر (روزہ دار) چڑھ آئے تو اسے یہ جواب دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ)
اللہ ہمارے روزوں کی حفاظت فرمائے اور ہمیں ہر دینی امر میں مخلص بنائے۔