تحریر: عبدالجبار علیمی نیپالی، جمدا شاہی بستی
پیشگی معذرت!!
اللہ رب العزت اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں ہم سب کو رمضان المبارک جیسا مقدس مہینہ نصیب فرمایا ہے، اور ہم اس مہینے میں اللہ کی عبادت و ریاضت میں مشغول رہنے کی کوشش کرتے ہیں، پوری دنیا اس قدر مسجدوں کا رخ کرتی ہے مانو کہ صرف یہی ایک مہینہ اب زندہ رہنا ہے، خیر ماہ مقدس کی آمد پر پوری دنیا اس لیے خوشی مناتی ہے کہ رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ آیا ہے وہیں پر ہندوستان کے مدارس کے منیجر حضرات کو خوشی اسی لیے ہوتی ہے کہ اب تو مدرسہ آنے والے سال بھی چل جائے گا امام صاحب چندہ لینے جائیں گے، اور اس میں بھی دو طرح کے ائمہ ہیں ایک بے چارے وہ ہیں جو بوجہ مجبوری جاتے ہیں، لیکن اس میدان میں بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو صرف رمضان المبارک کا انتظار اسی لیے کرتا ہے کہ ممبئی، پونہ، گجرات، سورت ،حیدراباد جیسے شہروں میں جانا ہوگا اور خوب خوب چندہ کریں گے۔ سفر کریں گے گھومیں گے،
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ مدارس کی کثرت اور دارالعلوم اور جامعات کی زیادتی سے یہ چندہ والے بھی نہیں سمجھتے ہیں کہ یار ایک ضلع میں دس پندرہ سیٹھیاں ہیں سب مل کر ایک اپنا کالج نہیں چلا رہے ہیں حالانکہ وہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں ایڈمیشن کرا رہے ہیں جو ہمارے دشمنوں کے کالج ہیں، لیکن یہاں صرف سیٹھ صاحب لوگ ذمہ دار نہیں ہیں یہاں تو ہم ذمہ دار ہیں ہم نے تو ان کو بس اتنا ہی سمجھایا اور پڑھایا ہے کہ مدرسہ قائم کریں کلینڈر میں آپ کا نام رہے گا، روداد میں آپ کو مخیر قوم لکھا جائے گا، آپ کی تعریف ہوگی، گھن آتی ہے ایسے لوگوں پر جو دارالعلوم کے نام پر قوم کو گمراہ کرتے ہیں، ان بھولے بھالے سیٹھ حضرات کو جھوٹی تسلی دے کر تعلیم کی آڑ میں لوٹتے ہیں، یہ سب کب تک ہوتا رہے گا۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اہل ثروت حضرات سے اس طرف توجہ کرنے کی بات کریں، ایک مدرسہ جس کے لیے عالم صاحب ایک ماہ کے روزے نماز تراویح سب چھوڑ چھاڑ کر کبھی دادر، کھبی کرلا، کبھی کاجو پاڑا، کبھی ساکہ ناکہ، تو کبھی مصطفی بازار کا چکر لگاتے ہیں کیا اللہ کی بارگاہ میں ان کو حساب نہیں دینا ہے، مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب علمائے کرام ہی کے کئے ہوئے چندوں سے ادارے پروان چڑھتے ہیں تو بیچ میں جاہل، ان پڑھ ،گنوار صدر ناظم سال بھر کیوں کر ہمیں مدرسے کے اصول و ضوابط بتاتے رہتے ہیں۔
اور ہم بھی بہت شوق سے چندے کی رسید لے کر دھوپ کی شدت برداشت کرکے پیٹ کی آگ بجھانے کے واسطے ادھر سے ادھر رسید لے کر نکل پڑتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بہت اچھا کر رہے ہیں. لیکن دنیا ہمیں بیوقوف سمجھتی ہے کہ یہ وہ قوم ہے جس قوم میں علماء کو انبیاء کرام کا وارث کہا گیاہے، یہ در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، پورے رمضان نہ تو ہمارے لیے رہنے کی جگہ، نہ تو اور کوئی سحری افطار کے انتظامات ، کیا سال بھر ہم اسی لیے مدرسے کی زمہ داری نبھاتے ہیں کہ ایک ماہ کی چھٹی بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ نہ گزار سکیں۔ اور اتنا سہنے کے بعد ہم کہتے ہیں کتنا مشکل یہ چندے کا سفر لگتا
ارے آپ کو جانے کے لیے کون بولا، نہ جائیں نہ کریں اللہ کی ذات پر بھروسہ کرکے کوئی دوسرا کام دیکھیں، ارے ہاں لیکن ہم کو تو کچھ آتا ہی نہیں بس میں صرف تقریر کرسکتا ہوں نماز پڑھا سکتا ہوں اور تو کچھ میں نے آٹھ سال میں سیکھا ہی نہیں، سمجھ میں آئی بات، پچاس روپیہ کے لیے میں نے اہل ثروت حضرات کو دیکھا ہے کہ بعد میں آنا، دوبار تین بار پریشان کرنا اور ہم بھی واہ واہ واہ ۔
ارے بھائی کب تک ہم ان جاہل صدر اور منیجروں کو آرام دیتے رہیں گے، سال بھر تک صدر اور ناظم کا ٹیگ وہ لگا کر چلیں تو رمضان میں بھی ایک بار ممبئی کا دورہ کرنا چاہیے ایک دو رسید ان کے بھی حوالے کردینا چاہیے لیکن افسوس چاپلوسی اور بے غیرتی کی حد ہوگئی، سال بھر ایک عالم کی تنخواہ اگر دس ہزار ہے بمشکل تو بھی ایک لاکھ اور بے چارے چندہ کتنا کرتے ہیں دو لاکھ ڈیڑھ لاکھ واہ کیا انصاف ہے جیسے ہی ممبئی سے یوپی میں قدم رکھتے ہیں پوری کمیٹی حساب لینے کے لیے مال غنیمت کو لوٹنے کی طرح ٹوٹ پڑتی ہے، اور مولانا صاحب بے چارے ایک ایک حساب دیتے جارہے ہیں آخر میں کہیں ہزار دو ہزار کی کمی بیشی ہوگئی تو پورے علاقے کو سر پر اٹھا لیا گیا یار یہ تو چندہ والا پیسہ کھا گئے۔ جاگیں علما جاگیں ۔
دنیا سے شکایت ہے نہ عالم سے گلہ ہے۔
جو کچھ بھی ہے اپنے ہی ہاتھوں کے ہیں کرتوت