تحریر: آصف بلال فیضی
اسکالر: شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی
جب سے دنیا قائم ہوئی اس کا یہ دستور رہا ہے کہ حق بولنے والے حق سننے والے آتے اور جاتے رہے اور کچھ تو ایسے بھی آۓ جن کی زندگی ہی حقیقت کا اک تصور بن گئ لیکن بارہا یہ دیکھا گیا کہ باطل نے حق کے وجود کو اس صفحۂ ہستی سے مٹانے کی ناپاک سعی کی مگر اپنے اس کوشش میں وہ ناکام رہا
اسی لئے کسی نے نظم میں یوں کہا
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
اور خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
یہ بات دن کے اجالے کی طرح ظاہر و باہر اور مسلم ہے کہ لاکھ کوشش باطل کرتا رہے حق کو چھپا نہیں سکتا کیونکہ مشہور بات ہے حق سر چڑھ کر بولتا ہے جس کی عملی تصویر یہ کی برطانیہ کی خاتون جو عیسائی نظریات کی پابند تھی مگر جب بات مساوات کی چلی کہ کون سا ایسا مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو ایک نگاہ سے دیکھتا ہے تو وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئی کہ وہ مذہب اسلام ہے جو صرف بطور دعوی کہنے کے لئے نہیں بلکہ پانچ وقت مسجد میں رب کے حضور کالے گورے امیر غریب چھوٹے بڑے کو ایک ساتھ کھڑا کرکے اس کا ثبوت دے رہا ہے
ایسی ایک نہیں بیشمار مثالیں موجود ہیں کی حق نے بزبان اغیار اپنا طوطی بلوایا ہے آج بھی یہ زندہ دلیل ہے کہ چودہ سو سال پہلے کربلا کی تپتی ریگزاروں پر اپنے گھرانے کے معصوم نونہالوں کے ساتھ شہید ہونے والے سرکار امام حسین کو صبر وتحمل کا پیکر حق پرستی کی جداگانہ کردار نبھانے والا مرد مجاہد اور آتنکواد کے خلاف سب سے پہلی جنگ لڑنے والا حیدری شیر صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ کفار بھی کہتے ہیں اسی کا ایک عکس یہ بھی ہے کہ دنیا کا مشہور عیسائی سائنسدان جس کا نام مائیکل ہارٹ (Michael Hart) تھا اس نے جب دنیا کے سو (100) عظیم دماغداروں اور ماہر سیاستدانوں کے تذکرہ پر ایک کتاب تشکیل دی تو اس میں جب آفاقی طور پر انسانیت پر احسان کرنے والے دنیا کے سب سے عظیم انسان کی بات آئی کہ کون ہے؟ تو وہ عیسائی تھا اپنے مذہب کے کسی بڑے شخص کا ذکر کر سکتا تھا لیکن اس کی جرأت نہ ہوئی کیوں کہ حقیقت کو روپوش نہیں کیا جا سکتا تھا لہذا اس نے بر سر فہرست محسن اعظم رحمت للعالمین تاجدار مدینہ یعنی جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کیا۔
آصف یہ کہتے گھس گئیں اغیار کی زبان
پھیلے ہوئے ہیں دہر میں انوار محمد