تعلیم

مدارس سے امت مسلمہ کی بقا ہے

ازقلم: محمد اسرار احمد فیضی واحدی
صدر: رضا اکیڈمی ضلع گونڈہ

مشہور ادیب اور شاعر حکیم احمد شجاع ،نباض اعظم شاعرمشرق ڈاکٹرمحمد اقبال کے دیرینہ نیاز مند تھے ،انہوں نے اپنی کتاب "خون بہا” میں ڈاکٹر اقبال کے بارے میں بھی اپنی بعض یاد داشتیں قلمبند کی ہیں،اس کتاب میں انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک مجلس میں میں نے دینی مکاتب و مدارس کا تذکرہ کیا تو ڈاکٹر اقبال نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے بڑی درد مندی اور دل سوزی کےساتھ فرمایا :جب میں تمہاری طرح جوان تھا تو میرے قلب کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی میں بھی وہی کچھ چاہتا تھا جو تم چاہتے ہو۔ انقلاب ! ایک ایسا انقلاب جو ہندوستان کے مسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن قوموں کے دوش بدوش کھڑا کردے ۔ یورپ کو دیکھنے کے بعد میری رائے بدل گئی ہے ۔ ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو،غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہیں مکتبوں میں پڑھنے دو،اگر یہ مُلا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا ؟ جو کچھ ہوگا میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں ۔ اگر ہندوستان کے مسلمان ان مکتبوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء اور باب الاخوتین کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش ہی نہیں ملتا،ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔(اوراق گم گشتہ ،از رحیم بخش شاہین بحوالہ چراغ راہ ص: ۹۲) اس میں کوئی شک اور شبہ نہیں کہ دینی مدارس ملت اسلامیہ کا دھڑکتا دل ہے ۔ وہ دل جس کی دھڑکن زندگی کی علامت اور پہچان ہے اور جس کی خاموشی موت کی خاموشی بن جاتی ہے ،دل اگر پورے جسم میں خون پہنچاتا ہے اور اسے سرگرم اور زندہ رکھتا ہے تو یہ دینی مدارس بھی امت مسلمہ کو دین کا خادم مبلغ اور ترجمان فراہم کرتے ہیں ۔ جن کی وجہ سے امت مسلمہ کا وجود متحرک زندہ اور فعال رہتا ہے، تمام دینی جماعتوں تحریکوں،اداروں تنظیموں اور سوسائٹیوں کو یہیں سے قوت و طاقت، کمک اور رسد پہنچتی ہے ۔ اگر ان اداروں تحریکوں، جماعتوں اور تنظیموں کو یہاں سے یہ پاور طاقت و قوت انرجی نہ پہنچے تو ان کی فعالیت اور حرکت و حرارت میں کمی آجائے اور ایک طرح سے بے جان و بے حس ہو جائے ۔ داعی ہوں یا مبلغ دین کا خادم ہوں یا ترجمان امام ہوں یا خطیب مصنف ہوں یا مولف مرتب ہوں یا صحافی و محرر خطیب ہوں یا واعظ استاد ہوں یا مربی مفتی ہوں یا قاضی امیر ہو یا حاکم یا کوئی بھی خدمت گزار دین کے لائن سے ہوں یا سماجی ورکرر کے اعتبار سے سب اسی کے خوشہ چیں اسی گل کے پھول و کلی اور اسی چمن کے گلہائے رنگا رنگ ہوتے ہیں ۔مدارس اسلامیہ حفاظت دین ،فروغ دین اور اشاعت اسلام کا ذریعہ ہیں، تقریبا ڈیڑھ سو سالوں سے تو خود ہندوستان بلکہ بر صغیر میں ان مدارس کے جو خدمات اور کردار ہیں وہ کسی سے بھی مخفی نہیں ہے ۔ موجودہ ہندوستان میں اسلامی تہذیب کے جو بھی جلوے ہمیں نظر آتے ہیں، وہ انہی مدارس کی دین ہیں اور انہیں دینی اداروں کا فیض ہے ۔ انہیں دینی اداروں نے اسلام کی فکری سرحدوں کی حفاظت کے لئے ایسے افراد اور ایسی ٹیم تیار کی ہے، جو اپنے زمانہ کے چیلنجون کا ڈٹ کر، آنکھ سے آنکھ ملا کر اور سینہ سپر ہوکر مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت ہر طرح کی قربانی دے کر امت کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کا حوصلہ رکھتی ہے ،آپ ماضی قریب کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے اور تاریخ کے ان اوراق کا مطالعہ کرلیجئے آپ کو معلوم ہوگا کہ جب بھی اسلام کے خلاف کوئی آندھی اٹھی تو ان مدارس اور دینی جامعات کے فارغین اور فضلاء نے ہی اس باد سموم اور باد سرسر کا مقابلہ کیا اور امت محمدیہ کو راہ حق کی رہنمائی کی ۔

اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
نہگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہہ و بالا

دشمنان اسلام کی طرف سے مدارس اور علماء کے خلاف یہ مہم جوئی جو آج اور بھی زور و شور پر ہے خود اس حقیقت کو واشگاف کرتی ہے اور اس راز کو ظاہر کرتی ہے کہ اسلامی عقیدہ ،اسلامی ثقافت اور اسلامی تشخصات کی حفاظت اور مسلمانوں کو مسلمان باقی رکھنے میں مدارس اسلامیہ کا اور طبقئہ علماء کا کتنا بڑا حصہ ہے ۔ جو آج دشمنوں کی نظر میں اور اغیار کی نگاہ میں سب سے زیادہ کھٹک رہا ہے ۔ آج باطل کو سب سے زیادہ خطرہ اور خوف انہیں مدارس اور مدارس کے انہیں درویش صفت اور مادی وسائل کے اعتبار سے خستہ حال لیکن اسلام کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے والے علماء سے ہے ۔

ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات

وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر یہ مدارس اور یہ علماء باقی رہیں گے تو ممکن نہیں کہ مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ اور ان کے اسلامی شعار و تشخصات و امتیازات کو اغوا کیا جاسکے اور ان میں کسی طرح سیندھ لگایا جاسکے ۔ یا انہیں مغربی اور زعفرانی تہذیب میں جذب کیا جاسکے ۔ بقول گھر کے ایک گواہ کے کہ یہ ایسا سخت جان گروہ ہے کہ اسے بیگانے بھی برا کہتے ہیں، اور اپنے ہیں وہ بھی اس پر تحقیر و ملامت طنز و استہزاء کا تیر پھینکنے سے نہیں چوکتے ۔جن دینی مدارس کے بارے میں علماء کرام نے فرمایا تھا کہ مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے،جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں اور عالم اسلامی کا یہ بجلی گھر ہے جہاں سے اسلامی ابادی میں بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے اور جہاں قلب و نگاہ اور ذھن و دماغ ڈھلتے ہیں ان مدارس کے بارے میں غیروں کی عیاری اور اپنوں کی سادگی پر سخت افسوس اور حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے بہت سے اچھے خاصے پڑھے لکھے ،اسکالر اور دانشور لوگ بھی بے تکلف سازش کا شکار بن رہے ہیں اور وہ بھی ان مدارس میں خدمت کرنے والوں کو اپنی بے نگاہی اور کم نگاہی کی وجہ سے کم نگاہی سے دیکھ رہے ہیں ۔ اور شب و روز علماء پر اعتراض اور تنقید کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے اور اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ علماء کے اعتماد کو مجروح کرنا اور ہمہ وقت مدارس اور وہاں کے نظام میں کیڑے نکالنا در اصل دین و مذہب کو مجروح کرنے کے مترادف ہے ۔آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا اور اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ اگر بر صغیر ہندو پاک میں یہ مدارس نہیں ہوتے تو مغلیہ حکومت و امپائر کے زوال کے بعد ہم کس حشر میں ہوتے ہمارا انجام کیا ہوتا۔ کیا ہمارے نام اور کام میں کہیں اسلامی شان و شوکت کا معمولی سا رنگ بھی ہوتا ؟کیا حلال و حرام جائز اور ناجائز سے واقف ہوتے کیا ہمیں دینی مسائل میں رہنمائی کرنے والا کوئی ملتا اور ہمیں فکری اور تہذیبی ارتداد سے بچنے کو کوئی سامان مہیا ہوتا ؟ اس لئے خدا را ! علماء اور مدارس کے سلسلہ میں اپنے منفی روئیے کو بدلئے۔ بیجا تنقید سے پرہیز کیجئے۔ علماء اور مدارس کے وقار و اعتماد کو ٹھیس مت پہنچائے۔ اپنی مثبت رائے اور ںظام تعلیم میں مفید اصلاح اور تبدیلی نیز نصاب تعلیم کے بارے میں صحیح مشورہ اور تجزیہ ضرور پیش کیجئے ،۔صرف تھیوری نہ پیش کرکے، پریکٹیکل کچھ کرکے دکھائیں کچھ ایسے معیاری اور آئیڈیل مدارس قائم کرکے دکھائیں تاکہ دوسرے بھی آپ کی تقلید کریں اور آپ کے آئڈیئل کو آئڈیئل بنائیں۔

بے عمل دل ہو تو جذبات سے کیا ہوتا ہے
کھیت گر بنجر ہو تو برسات سے کیا ہوتا ہے

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com