اہل بیت ایڈیٹر کے قلم سے خواتین اسلام

عزم و استقال کی پیکر ہم مسلمانوں کی ماں

ازقلم: محمد شعیب رضا نظامی فیضی
رجسٹرڈ قاضی شہر گولا بازار ضلع گورکھ پور یو۔پی۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا مکۃ المکرمہ کی ایک معزز،مکرم،ذی نسب رئیسہ خاتون تھیں، ملک عرب کے مشہور ترین قبیلہ قریش سے تعلق رکھنے والی یہ معزز خاتون حسن و صورت کے ساتھ سیرت و کردار میں اپناثانی نہیں رکھتی تھیں، زمانہ جاہلیت میں بھی آپ کے کردار کا یہ عالم تھا کہ آپ کو "طاہرہ” کہا جاتا تھا۔ عقل و دانائی اور بلند ہمتی ایسی تھی کہ اپنے والد کا پورا کاروبار(جو ایک کاروباری سلطنت کی مانند تھا) تن تنہا سنبھالتی تھی اور ایسے وقت میں جب پورا معاشرہ عورت کو اپنی جوتی کی نوک سے کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا۔ عزم و استقلال کی دھنی تھیں۔ ان کی تین شادیاں ہوئیں، پہلی دو شادیاں ہوئیں دونوں شوہر انتقال کرگئے، جس کے بعد ارادہ کرلیا کہ اب شادی نہ کروں گی مگر آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے اخلاق و کردار، دیانت و صداقت اور آپ کی تاجرانہ حکمت سے ایسی متاثر ہوئیں کہ حضور ﷺ کو نکاح کا پیغام بھجوانے سے خود کو روک نہ سکیں جبکہ آپ کی عمر 40 سال ہوچکی تھی اور حضورﷺ کی محض 25 سال تھی، مزید برآں کہ حضورﷺ بغیر والدین کے تھے اور مکہ کے بڑے بڑے رؤسا حضرت خدیجہ سے نکاح کے خواہاں تھے۔ حضور ﷺ نے گھر کے بڑوں سے مشورہ کرکے پیغام کو قبول کرلیا، یوں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو سب سے پہلے ام المومنین(تمام مسلمانوں کی ماں) ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
نبی آخرالزماںﷺ کی حبالہ زوجیت میں آنے کے بعد آپ نے اپنا تن ،من، دھن سب کچھ نبی کریمﷺ پر قربان کردیا، پوری دولت آقاﷺ کے قدموں میں ڈال دیا کہ میرے آقا جو چاہے کریں! مسلسل پچیس سالوں تک آپ نے نبی کریمﷺ کی ہر طرح سے مدارت کی اس دوران آپ پر مکہ کی عورتوں نے طعنے بھی کسے کہ "ایک یتیم سے شادی کرلی”، "محمد(ﷺ) کے پاس کوئی مال و دولت نہیں ہے” لیکن ان سب کو بالاے طاق رکھتے ہوئے حضرت خدیجہ نے صبرواستقلال کا مظاہرہ کیا۔ آج دنیا ان طعنہ دینے والی خواتین کے نام بھی نہیں جانتی مگر حضرت خدیجہ کے نام کا خطبہ ضرور پڑتھی ہے۔ ان پچیس سالوں میں سب سے زیادہ صبر و استقال اور بلند ہمتی کی ضرورت تب پڑی جب آقاے کریمﷺ نے نبوت کا اعلان کیا اور سارا مکہ آپ کا دشمن بن گیا اس وقت دست و بازو بن کر حضرت خدیجہ نے آپ کی حوصلہ افزائی کی اور قدم بقدم ساتھ دیتی رہیں، جب عرب کے ہر ایک جزیرے سے مذہب اسلام اور نبی آخرالزماںﷺ کی مخالفت ہورہی تھی اس وقت آپ کی حمایت میں صرف حضرت خدیجہ کے حوصلوں کا ساتھ ملا تھا۔ حتی کہ سن 7 نبوی میں جب دشمنان اسلام نے اسلام کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور نبی کریمﷺ کو مع اہل عیال اور تمام مسلمانوں کے ساتھ جب شعب ابی طالب میں محصور کرنے کا فیصلہ کیا تو نبی کریمﷺ کے ساتھ حضرت خدیجۃ الکبریٰ بھی تین سالوں تک محصور رہیں۔ غرض کہ آغاز و حی سے لے کر اپنی زندگی کے آخری ایام تک آپ نے نبوت و رسالت کی نہ صرف تصدیق کی بلکہ جان ومال کی قربانی پیش کر مذہب اسلام کو سینچتے ہوئے 10رمضان المبارک کو اس دنیاے فانی کو خیرآباد کہا، مکۃ المکرمہ کے قبرستان حجون میں مدفون ہوئیں، جہاں پر ایک گنبد اور درگاہ بنا ہوا تھا مگر افسوس نجد کے غنڈوں نے اسے 1941 میں دیگر آثار اسلامیہ کے ساتھ تباہ کردیا۔