از قلم: محمد ہاشم اعظمی مصباحی، نوادہ مبارکپور اعظم گڑھ یو۔پی۔
روزہ جہاں شرعی اعتبار سے روحانی پاکیزگی اور ایمانی تقدس کا ضامن و امین ہے وہیں طبی نقطۂِ نظر سے بھی روزہ انسانی جسم اور صحت کے لئے ایک ایسا عمل ہے جس کی کوئی نظیر نہیں. ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ روزے سے جسم میں کوئی نقص یا کمزوری واقع نہیں ہوتی بلکہ روزہ رکھنے سے صرف دو کھانوں کا درمیانی وقفہ ہی معمول سے کچھ زیادہ ہوتا ہے اور درحقیقت 24 گھنٹوں میں جسم کو مجموعی طور پر اتنے حرارے (Calories) اور مائع (پانی) کی مقدار مل جاتی ہے جتنی روزے کے علاوہ دنوں میں ملتی ہے۔ مزید برآں یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ لوگ رمضان میں پروٹین اور کاربوہائیڈریٹ عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مجموعی غذائیت عام دنوں کے مقابلے میں جسم کو زیادہ تعداد میں ملتی ہے اس کے علاوہ جسم فاضل مادوں کو بھی استعمال کرکے توانائی کی ضرورت پوری کرتا ہے میڈیکل سائنس کی روشنی میں روزہ رکھنے سے مندرجہ ذیل طبی فوائد حاصل ہوتے ہیں :
(۱)روزے سے جسم میں موجود زہریلے مادوں کی صفائی ہوتی ہے.
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ نظام ہضم ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے بہت سے اعـضا پرمشتمل ہوتا ہے جیسے منہ ،جبڑے میں لعابی غدود ،زبان ،گلا ،مقوی نالی ،آنت و جگر وغیرہ تما م کے تمام نظام ہضم کے حصے ہیں ۔جب ہم کھاتے ہیں تو تمام نظام ہضم حرکت میں آجاتے ہیں اور ہر عضو اپنا مخصوص عمل کرتا ہے ،گویا کہ یہ چوبیس گھانٹے اپنی ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دباؤ ،جنک فوڈاور طرح طرح کے مضر صحت الم غلم کھانے کی وجہ سے متاثر ہو جاتا ہے ۔لیکن ایک ماہ کے روزے سے سارے نظام ہضم کو آرام ملتا ہے اور اس کا حیران کن اثر جگر پر ہوتا ہے جس سے اس کو ایک طاقت و توانائی مل جاتی ہے جیسا کہ مغربی عیسائی محقق ”ایلن کاٹ،،اپنی معروف کتاب ”fasting as way of life،، میں روزے کے بے شمار فوائد و ثمرات کے متعلق لکھتے ہیں کہ ”روزے سے انسان کے نظام انہضام (معدہ )اور دفاعی نظام کو مکمل آرام ملتا ہے اور غذا ہضم کرنے کا عمل نارمل حالت پر آجاتا ہے ،،(fasting as way of life/32)۔گویا کہ دوران روزہ جسم میں کوئی نئی خوراک نہیں جاتی اس وجہ سے زہریلے مادے پیدا نہیں ہوتے اور جگر پوری تند ہی سے پرانے زہریلے مادوں کو صاف کرکے اس میں تازگی و جدت پیدا کرتا ہے ۔سائنسی نقطہ نظر سے ماہرینِ طب کا دعویٰ ہے کہ اس آرام کا وقفہ ایک سال میں ایک ماہ ضرور ہونا چاہیے۔
(٢)۔ روزہ کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہو جاتی ہے یہ اثر دل کو نہایت فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ خلیوں کے درمیان (Inter Celluler) مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے خلیوں کا عمل بڑی حد تک پر سکون ہو جاتا ہے۔ لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں (Epitheliead) کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی صرف روزے کے ذریعے ہی آرام اور سکون ملتا ہے۔ اسی طرح سے پٹھوں پر دباؤ کم ہو جاتا ہے۔ پٹھوں پر یہ ڈائسٹالک دباؤ دل کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ روزے کے دوران ڈائسٹالک پریشر ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے یعنی اس وقت دل کو آرام ہوتا ہے۔ مزید برآں آج کا انسان ماڈرن زندگی کے مخصوص حالات کی بدولت شدید تناؤ یا ٹینشن کا شکار رہتا ہے ان حالات میں رمضان کے ایک ماہ کے روزے بطور خاص ڈائسٹالک پر یشر کو کم کرکے انسان کو بہت زیادہ فائدے پہنچاتے ہیں۔
(٣) پھیپھڑے براہِ راست خون صاف کرتے ہیں اس لئے ان پر بلاواسطہ روزے کے اثرات پڑتے ہیں۔ اگر پھیپھڑوں میں خون منجمد ہو جائے تو روزے کی وجہ سے بہت جلد یہ شکایت رفع ہو جاتی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ نالیاں صاف ہو جاتی ہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ روزہ کی حالت میں پھیپھڑے فضلات کو بڑی تیزی کے ساتھ خارج کرتے ہیں اس سے خون اچھی طرح صاف ہونے لگتا ہے اور خون کی صفائی سے تمام نظامِ جسمانی میں صحت کی لہر دوڑ جاتی ہے۔
جاری۔۔۔۔