تحریر: محمد علقمہ اشرف قادری علیمی
سابق استاد جامعہ سعدیہ عربیہ کیرلا
اللہ تعالی کے مقرب بندے اور چمنستان رسالت کے مہکتے ہوئے پھول حضرت شیخ غوث الثقلین صاحب العلمین سید احمد کبیر حسنی حسینی موسوی رفاعی شافعی علیہ الرحمہ کا عرس سراپا قدس ہونے کو ہے اس خصوصی موقعہ پر رفیق گرامی سید حسام الدین رفاعی صاحب خانقاہ رفاعیہ بڑودہ گجرات نے فرمائش کی کہ عرس کے موقعہ پر حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ کے حوالے سے کچھ معلومات کتابی شکل میں احباب کے درمیان لانے کا ارادہ ہے لہذا آپ بھی کچھ اس حوالے سے تحریر کر دیجئے پھر انہوں نے عنوان کی ایک لمبی فہرست اور مواد کے لئے کافی کتابیں ارسال فرمائیں لیکن میں نے جس موضوع کا انتخاب کیا اس کے متعلق معلوم ہوا کہ اس پر کام ہو چکا ہے پھر مجھے فرمودات سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ کے متعلق لکھنے کا حکم ہوا تو نا چیز اس کو اپنی سعادت مندی سمجھتے ہو ئے لکھنے کے لئے تیار ہو گیا۔ ذیل میں چند فرمودات نقل کرتا ہوں ملاحظہ فرمائیں۔
خبردار!اللہ تعالی کے لئے فوقیت ، سفلیت اور مکان ثابت نہ کرنا اور ہاتھ اور آنکھ( وغیرہ انسانی اعضا کی طرح ) اور آمدو رفت کے طریقہ پر نزول کا قائل نہ ہونا کیوں کہ کتاب و سنت میں اگر کہیں ایسے الفاظ آئے ہیں جن سے بظاہر یہ باتیں معلوم ہوتیہیں تو اسی کتاب و سنت میں اس جیسی دوسری نصوص بھی ہیں جو اصل مقصود کی تائید کرتی ہیں (اور اللہ تعالی کا مخلوق کی طرح نزول اور فوق و مکان اور ید وعین سے پاک ہونا بتلاتی ہیں) لہذا اب اس کے سوا کچھ چارہ نہیں کہ سلف صالحین کی طرح یوں کہا جائے کہ ہم ان متشابہات کے ظاہر پر ایمان لاتے ہیں اور مراد کے علم کو اللہ ورسول جل جلالہ و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے حوالے کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہم اللہ تعالی کو مخلوقات کے عیوب سے پاک بھی سمجھتے ہیں پیشوایان سلف اسی راستے پر چلتے رہے(سید الاولیاء)
ایک مقام پر فرمایا کہ ’’بزرگوں اپنے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے مرتبہ کو بہت بڑا سمجھو۔ آپ ہی مخلوق اور حق تعالی کے درمیان واسطہ ہیں۔ آپ ہی نے خالق و مخلوق کا فرق بتایا ہے۔ آپ اللہ کے بندے ہیں اللہ کے محبوب ہیں۔ اللہ کے رسول ہیں۔ مخلوق الہی میں سب سے زیادہ کامل ہیں۔ اللہ کے پیغمبروں میں سب سے افضل ہیں۔ اللہ کی طرف راستہ بتلانے والے، اس کی خبریں سنانے والے اور اس کی باتیں معلوم کرنے والے ہیں۔ آپ ہی سب کے لئے بارگاہ رحمانی کا دروازہ اور دربار صمدیت میں سب کا وسیلہ ہیں جو آپ سے مل گیا اللہ سے مل گیا اور جو آپ سے جدا ہوا اللہ تعالی سے جدا ہوا آپ(صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش اس شریعت کے تابع نہ ہو جائے کہ جس کو میں لے کر آیا ہوں۔ (ایضا )
ایک جگہ مزید عقیدہ کے حوالے سے اپنے مریدین و متوسلین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ "صحابہ میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ پھر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ —– صحابہ سب کے سب ہدایت پر ہیں (رضی اللہ تعالی عنہم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے آپ نے فرمایا کہ میرے اصحاب ستاروں کے مثل ہیں تم جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے اور صحابہ کے درمیان جو اختلافات ونزاعات ہوئے ہیں ان کے تذکرہ سے زبان کو روک لینا واجب ہے ۔ اور ان کے بجائے ان کے محاسن و کمالات بیان کرنا چاہیے اور ان کی تعریف کرنا چاہیے ۔رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔ صحابہ سے محبت رکھو ان کے ذکر و تذکرہ سے برکت حاصل کیا کرو اور ان جیسے اخلاق حاصل کرنے کی کوشش کرو” ( سید الاولیاء)
اہل بیت کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے متعلق عقیدہ کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
دوستوں!اپنے دلوں کو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی محبت سے بھی روشن کرو۔ کیوں یہ حضرات وجود کے چمکتے ہوئے انوار و سعادت کے روشن آفتاب ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ اللہ فی اہل بیتی یعنی میرے اہل بیت کے متعلق اللہ سے ڈرو اور ان کے حقوق کو ادا کرو اللہ تعالی جس بندہ کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اس کو اہل بیت کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلمکی اس وصیت پر عمل کرنے کی پوری توفیق عطا فرماتا ہے۔ تو وہ ان سے محبت کرتا ان کی تعظیم کرتا مدد کرتا اور ان کی شان رفیع کا اہتمام کرتا، ان کی عزت کی حفاظت کرتا ان کے حقوق کی رعایت کرتا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا جو حق ان کے بارے میں امت پر ہے اس کی پوری نگہداشت کرتا ہے۔قیامت میں آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس سے اس کو محبت ہوگی اور جس کو اللہ سے محبت ہوگی اس کو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے محبت ہوگی اور جس کو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے محبت ہوگی اس کو آپ کے اہل بیت سے بھی محبت ہوگی اور جو اہل بیت سے محبت کرے گا وہ ان کے ساتھ ہوگا اور وہ اپنے جد امجد سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ ہوں گے۔ ان کو اپنے سے آگے بڑھاؤ خود ان سے آگے نہ بڑھو ان کی مدد کرو، اور ان کی تعظیم کرو اس کی برکتیں تمہارے اوپر برسیں گی ۔
صاحبو!یہ چند فرمودات جو نقل کئے گئے اس میں سید الاولیاء حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ نے لوگوں کو عقیدے کے متعلق ارشاد فرمایا اس سے معلوم ہوا برکتیں اور رحمتیں اور اور اعمال کی قبولیت کا مدار یہ عقیدہ اور ایمان پر موقوف ہے اگر اس میں کچھ نقص آجائے تو جتنا بھی کار خیر کر لیا جائے کوئی فائدہ نہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا "ومثل الذین ینفقون” الخ(پ ۴ آل عمران ) یعنی وہ لوگ جو اپنا مال اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کر
تے ہیں ا
س ہوا کی طرح ہے جس میں سردی ہو یا گرمی وہ ایسی قوم کی کھیتی کو پہونچی جس نے ظلم کیا تو اس ہوا نے اس کی کھیتی کو ہلاک کر دیا اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن انہوں خود اپنے اوپر ظلم کیا۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے ظالم کا اللہ کی راہ میں مال کا خرچ کرنا مقبول نہیں اور ظالم سے مراد کافر ہے کیوں کہ اللہ اسی عمل کو قبول فرماتا ہے جو ایمان کی حالت میں کیا گیا ہو اور ایمان کی درستگی موقوف ہے عقیدے کی درستگی پر اگر عقیدہ درست نہیں تو کوئی عمل لائق قبول نہیں گویا کہ اپنے مریدین و متوسلین کو عقیدے کے متعلق ارشاد فرما کر یہ درس دے رہے ہیں جس طرح واصل الی اللہ کے لئے انقطاع عن الخلق ضروری ہے اسی طرح عقیدے کی درستگی بھی ضروری ہے ۔
اخیر میں ایک اور ملفوظ ملاحظہ فرمائیں آپ کے ملفوظات جس طرح عوام و خواص کے حق میں آئینے کی طرح ہے اسی طرح اخص الخواص کے لئے بھی نشان منزل سے کم نہیں ہے۔
آپ فرماتے ہیں:میرے پیارے!تیرا یہ گمان کہ یہ طریقت تیرے باپ کی میراث ہے۔ تیرے دادا سے سلسلہ بہ سلسلہ چلی آرہی ہے اور تیرے شجرہء نسب میں داخل ہو جائے گی تیرے خرقہ کے گریبان اور تیرے کلاہ پر منقش ہوجائے گی۔ تونے اس سرمایہ کو طریقت سمجھ لیا ہے کہ اونی لباس ہو، ایک کلاہ ہو، ایک لاٹھی ہو، ایک گدڑی اور بڑی سی پگڑی ہو بزرگوں جیسی شان و صورت ہو نہیں خدا کی قسم اللہ تعالی ان چیزوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تیرے دل کو دیکھتا ہے۔ تیرے دل خدا کے اسرار اور اس کے قرب کی برکت کیوں کر ڈالی جائے کہ وہ تو کلاہ و خرقہ اور تسبیح و عصا کے حجابوں میں گرفتار ہو کر اللہ تعالی سے غافل ہو رہا ہے عقل کس کام کی جو نور معرفت سے کوری ہے؟ اور وہ عقل کس کام کا جو جوہر عقل سے خالی ہو؟
اے مسکین تم نے اس جماعت جیسے کام تو کئے نہیں اور ان کا لباس پہن لیا اگر تو اپنے دل کو مار کر خوف کا لباس پہنتا اور ظاہر کو لباس ادب سے آراستہ کرتا اور نفس کو ذلت کا لباس پہناتا اور تکبر کو مٹنے کا لباس پہناتا اور زبان کو ذکر کے لباس سے آراستہ کرتا اور ان سب حجابوں سے جن میں پھنسا ہوا ہے چھوٹ جاتا اس کے بعد یہ لباس پہنتا تو تیرے لئے بہتر ہوتا مگر تجھ سے یہ بات کیوں کر کہی جائے (کہ تیری سمجھ میں نہ آئے گی تونے تو یہ سمجھ لیا ہے کہ میرا کلاہ اس جماعت جیسا کلاہ ہے۔ میرا لباس ان کے لباس جیسا ہے۔ سب کی صورتیں ایک جیسی ہیں مجھ میں اور ان میں کیا فرق ہے؟ حالاں کہ دل مختلف ہیں ( اور سب سے زیادہ دل ہی کو ان کے جیسا ہونے کی ضرورت ہے)
اگر تجھ کو اپنی حقیقت معلوم ہوتی تو ماں باپ،دادا چاچا اور لمبا کرتا وکلاہ اور تخت و زینہ سب سے الگ ہو جاتا اور خدا کی قسم اللہ کو ڈھونڈنے کے لئے ہمارے پاس آتا پھر اچھی طرح ادب حاصل کرکے یہ لباس پہنتا۔اور میرا گمان تو یہ ہے کہ حسن ادب حاصل ہو جانے کے بعد تو اپنے نفس کو اس لباس اور تمام فضولیات سے جو اللہ تعالی کو غافل کرنے والی ہیں خود ہی الگ کر لے گا۔ اے مسکین تو اس وقت اپنے وہم پر چل رہاہے۔ اپنے خیال پر راستہ طے کر رہا ہے۔ اپنے جھوٹ اور عجب و غرور کے ساتھ چل رہاہے۔ انانیت اور تکبر کی ناپاکی لادے ہوا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں۔ بھلا یہ کیوں کر ہو سکتاہے؟ تکبر کے ساتھ یہ راستہ ایک قدم بھی طے نہیں ہوسکتا۔ تواضع کا علم سیکھ۔ حیرت کا سبق پڑھ۔ مسکنت اور انکساری کا علم حاصل کر۔
ارے بیہودہ!تونے تکبر کا علم حاصل کیا اور بڑائی کا سبق پڑھا۔ بتا ان سب سے تجھے کیا حاصل ہوا؟ ہاں یہ ضرور ہواکہ تو اللہ والوں جیسی ظاہری صورت بناکر اس مردود دنیا کو حاصل کر رہا ہے۔ تونے بہت ہی برا کیا۔ تیری مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی گندی چیز کو گندی چیز کے عوض خرید رہا ہو (،کیوں کہ دنیا کے لئے اللہ والوں جیسی صورت بنانا بھی بدترین دنیا ہے) تو اپنے آپ کو خود ہی کیوں کر دھوکہ دے رہا ہے؟ اور اپنے بارے میں اپنے مریدوں کے متعلق کسی جھوٹی باتیں کرتا ہے؟ کہ اپنے کو اللہ والا کہتا ہے اور اپنے مریدوں کو طریقت کا سالک بتاتاہے۔ حالاں کہ نہ تو اللہ والا ہے اور نہ تیرے مریدوں کو کچھ اللہ کے راستے کا پتہ ہے۔( سید الاولیاء)
یہ چند فرمودات نقل کئے گئے ان کے فرمودات کو پڑھنے کے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صاحب کتاب گویا کہ کان پکڑ کر قاری کو سمجھا رہے ہیں بڑا نیک بنا پھرتا دیکھ تیرے اندر یہ یہ عیب اور اس کی اس طرح اصلاح کی جاسکتی ہے ان کے فرمودات عوام و خواص اور اخص الخواص خصوصی سجادگان ہر ایک کے لئے مشعل راہ ہے اگر خانقاہوں میں یہ کتاب ہر شخص کے لئے پڑھنا لازم کر دیا جائے تو امید قوی ہے لوگوں کے باطل کی اصلاح ہو جائے۔اللہ تعالی ہم سب کوحضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ کے فیضان سے بہرہ مند فرمائے آمین۔