مذہبی مضامین

ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ کیسے بنے؟

تحریر: محمد مجیب احمد فیضی،
بلرام پوری۔خادم/دارالعلوم محبوبیہ رموا پور کلاں اترولہ بلرام پور۔


اس خاک دان گیتی پر برسہا برس سے بنی آدم آباد ہے۔انسان اپنے ماحول معاشرے کی پیداوار ہوتا ہے،معاشرے کے طور طریقے،رسم ورواج عقائد اور بود باش کا بچوں کی تربیت میں ایک اہم رول ہوتا ہے، معاشرے میں سینکڑوں ادارے سرگرم عمل ہوتے ہیں سیاسی، مذہبی،معاشی اور رفاہی تنظیمیں کام کرتی ہیں سنیما، ریڈیو، ٹیلیویژن اور جرائد ومجلات جیسے وسائل کی ہما ہمی ہوتی ہے بچہ ان تمام تر چیزوں سے متاثر ہوتا ہے،اس کے اصلاح یا بگاڑ کا دار ومدار ان اداروں،انجمنوں کے اچھے برے ہونے پر ہے،ان ہی تمام چیزوں کے مجموعۂ عمل کو” معاشرہ "کہتے ہیں۔اسلام چوں کہ حدود و جہات سے کہیں بالاتر ایک آفاقی مذہب ہے اس لئے اس نے معاشرے کو صحیح نہج پر رکھنے اور اس سے بہتر کام لینے اور بچوں کے لئے مفید بنانے کی خاطر کچھ اصول مقرر کئے ہیں،مربی ،
معلم،حکومت،دیگر ذمہ دار افراد اور معاشرے کا ہر رکن اسے بہتر معیار پر قائم رکھنے کا ذمہ دار ہے۔
اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ:”تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئیے جو بھلائی کی جانب بلائیں اوراچھی بات کا حکم دیں اور بری بات سے روکیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں”۔ ( آل عمران: ۱۰۴ ) صراط الجنان
نیز ارشاد ہے:
اے مسلمانوں!تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی (ہدایت) کے لئے ظاہر کی گئی ،
تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
(حوالۂ سابق)
(۱)اس سے یہ اصول ثابت ہوا کہ معاشرہ اور اس کی رائے عامہ ہمیشہ بھلائیوں کو غالب کرنے اور برائیوں کو مٹانے کے لئے بیدار رہے،اور بچوں کے معصوم فطرت کو برائیوں سے گرد آلود نہ ہونے دے، انہیں ہرمحاذ پر ایمان واسلام کی باتیں اس کے آداب بتلائے۔
(۲)معاشرے کے تمام بچوں کو ذمہ دارافراد اپنے بچے تصور کریں اور ان سے اپنے بچوں جیسے محبت والفت کا مکمل اظہار کریں،چنانچہ صعب بن حکم کہتے ہیں: میں خلیفۂ دوم حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا انہوں نے مجھے اپنا بھتیجہ کہہ کر بلانا شروع کیا اور کہا: او! "میرے بھتجے” پھر میرے بتانے سے انہیں معلوم ہوا کہ میرے باپ کو اسلام کی دولت نصیب نہیں ہوئی تھی تو وہ مجھے
"میرے بیٹے،میرے بیٹے کہنے لگے”
اور اسی طرح حضرت انس
کہتے ہیں :میں آپ کاخادم تھا اور بغیر اذن کے گھر میں آتا جاتا تھا ایک بار آپ نے فرمایا:تم میرے بیٹے جیسے ہو، ہوسکتا ہے تمہارے بعد کوئی بات پیش آئے اس لئے گھر میں اجازت ہی سے داخل ہوا کر۔
نوٹ!حالت نابالغی کا واقعہ ہے۔
(آداب المفرد)
اس واقعہ میں حضرت عمر نے حضرت انس کو اجازت طلبی کے ساتھ ساتھ میرے بیٹے کا لفظ بھی استعمال فرمایا جو کہ اسلامی نظریہ تعلیم کے عین مطابق ہے۔
حضرت ابو صعصعہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری نے مجھے” میرے بیٹے” کہہ کر بلایا۔ (حوالۂ سابق)
اسی طرح بچے اپنے سے بڑوں کو اور بزرگوں کو "چچا "کہہ کر پکاریں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے: "انماالمؤمنون اخوۃ”
تمام مومنین اسلامی نقطۂ سے آپس میں بھائی بھائی ہیں،اور اوپر گزری ہوئی حدیث میں بھی ہمیں یہی پیغام دیا گیا سبحان اللہ!رب یہ اخوت کو سلامت رکھے

(۳)معاشرے کے افراد کا آپسی تعاون ضروری ہے، ایسے معاشرے کو حضور رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے” ایک جسم” سے تعبیر فرمایا ہے اس تعاون کی صفت سے ایک بڑے معاشرے کو خاندان اور کنبے میں بآسانی تبدیل کیا جاسکتا ہے اور اسے بھلائیوں کا خوگر بنایا جاسکتا ہے،ظاہر ہے ایسا معاشرہ اسلامی نونہالوں کے لئے کیا ہی خوش گوار اور کتنا بہترین تربیت گاہ ہوگا جس کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں،چنانچہ تاجدار دوعالم
صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
"تم مومنوں کو آپسی رحم ومحبت میں ایک جسم کے مانند دیکھتے ہوکہ جب ایک عضو کو تکلیف پہونچے تو سارا بدن
بے خوابی اور تپ میں مبتلا ہوجاتا ہے”۔

اللہ جل مجدہ الکریم ارشاد فرماتا:
"اور نیکی اور پرہیز گاری پر تم ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو بے شک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے "۔(المائدہ ۲) (صراط الجنان)
اس آیت مقدسہ میں صریح بیان ہے کہ نیکی وبھلائی کے کاموں میں معاشرے کےافراد کاباہم تعاون ہونا چاہئیے اور برائی کے کاموں میں تعاون بالکل نہیں ہونا چاہئیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتےہیں:
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،نہ کوئی ظلم کرے اس پر اور نہ عیب لگائے،جو اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرے گا اللہ رب العزت اس کی ضرورت پوری کرے گا، جو شخص کسی مسلمان کی مصیبت دور کرے گا
(کل بروز حشر) اللہ اس کی کشائش فرمائے گا جو شخص کسی (حاجت مند) کو کپڑا پہنائے گا کل قیامت کےدن اللہ اسے اپنے فضل سے پہنائے گا۔
(بخاری ومسلم)

(۴)معاشرے کے بچوں کی تربیت باہم” اللہ کےلئے محبت” کے فطری اصول پر دئیے جائے،اجتماعی جذبات میں اس نوع کی محبت کلیدی حیثیت رکھتی ،اسی محبت کے ذریعہ بچہ بڑا ہو کرمعاشرےکا بےلوث محبت کا عادی بن جائےگا اور معاشرے کے ہر فرد مومن کو اپنااسلامی بھائی تصور کرے گا۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
جس شخص میں تین خصلتیں ہوں اس کے ذریعہ وہ ایمان کی چاشنی کو پالے گا۔
۱اللہ اور اس کے رسول اس کے نزدیک دنیا کی ہر شی سے بڑھ کر محبوب ہوں۔
۲کسی سے محبت کرے تو محض رضائے مولی کے لئے۔ ۳ کفر کی جانب لوٹنے کو جب کہ اس کو اللہ نے اس سے نکال دیا ہے ،ایسے ہی ناپسند کرے جیسے جہنم میں پھینکا جانا اسے ناپسند ہے۔
(متفق علیہ)
آپ نے فرمایا اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو اگر چہ نبی نہیں ہیں لیکن انبیاء، شہداء ان پر رشک کریں گے پوچھا گیا! وہ کون لوگ ہیں؟ شاید ہم بھی ان سے محبت کریں آپ نے فرمایا وہ ایسے لوگ ہیں جو بغیر قرابت ونسب کے اللہ کے لئے باہم محبت رکھتے ہیں، ان کے چہروں پر نور ہوں گے اور وہ نور کے ممبروں پر ہوں گے،(ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوگی) جب لوگ دہشت زدہ ہوں گے تو وہ بے خوف ہوں گے،جب لوگ رنجیدہ ہوں گے تووہ مطمئن ہوں گے پھر آپ نے یہ آیت مقدسہ تلاوت فرمائی۔ ترجمہ:
"بے شک اللہ کے دوستوں کو نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ کچھ غم”۔
(نسائی شریف)

(۵)کسی غلطی کے ہونے پر معاشرہ اجتماعی خفگی، محرومی اور بائیکاٹ کے تادیبی ذرائع بھی بتدریج استعمال کرسکتا ہے۔ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے پڑوسی کے ایذاء رسانی کی شکایت کی آپ علیہ التحیۃ والثناء نے ارشاد فرمایا:
"اپنا سامان نکال کر باہر ڈال دو”۔ چنانچہ ایسا کرنے کے بعد کچھ لوگ جب اکٹھا ہوئے تو حالات معلوم کرنے کے بعد لوگوں نے اس کو برابھلا کہا جس سے متاثر ہوکر اس نے اپنے پڑوسی سے کہا تم اپنے گھر چلو میں تمہیں اذیت نہیں دوں گا۔ (الادب المفرد)
غزوہ تبوک میں عام مسلمانوں کے ساتھ تین صحابہ جو جنگ سے پیچھے رہ گئے تھے رب کے حکم سے آپ نے ان تینوں حضرات کے بائیکاٹ کا حکم دیا اللہ نے اس کااثر یوں بیان فرمایا ہے:
اور ان تین پر اللہ کی (رحمت ہوئی) جن کا معاملہ موقوف کردیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور وہ اپنی جانوں سے تنگ آگئے اور انہوں نے یقین کر لیا کہ اللہ کی ناراضگی سے( بچنے )کے لئے اس کے سوا کوئی پناہ نہیں ہے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی تاکہ وہ تائب رہیں بے شک اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (صراط الجنان)

(۶)معاشرے کو صحیح معیار پر رکھنے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ بچوں کے لئے اچھے ہم جولی منتخب کئے جائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
صرف مومن کو دوست بناؤ، اور تمہارا کھانا صالح ہی کھائے۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com