نتیجۂ فکر: سید شہباز اصدق
دل بسوئے صنم ہو تو میں کیا کروں
سر مرا در پہ خم ہو تو میں کیا کروں
سوزِ دل چشمِ نم ہو تو میں کیا کروں
یا رفاعی یہ غم ہو تو میں کیا کروں
یا رفاعی رفاعی رہے زیرِ لب
مجھ پہ ان کا کرم ہو تو میں کیا کروں
ہے وظیفہ مرا یا رفاعی مدد
اب کسی کو الم ہو تو میں کیا کروں
مرقدِ شہ رفاعی ہے باغِ ارم
پاس باغِ ارم ہو تو میں کیا کروں
حضرتِ شہ رفاعی مرے واسطے
بوئے ابرِ کرم ہو تو میں کیا کروں
نامِ احمد رفاعی صدا کے لیے
لوحِ دل پر رقم ہو تو میں کیا کروں
نام آیا یہ کس کا لبِ ناز پر
اب کرم دم بدم ہو تو میں کیا کروں
یا رفاعی ترے اصدقی کے لیے
خوب تر جامِ جم ہو تو میں کیا کروں