محمد رمضان حیدر قادری فردوسی رفاعی
خانقاہ فردوسیہ جونکا شریف
تو مرشدِ مطلق ہے میں دیتا ہوں گواہی
عشاق کو کافی ہے تری فیض نگاہی
مجھ پر بھی ہو للہ کرم شیخ رفاعی
ابدال بھی اوتاد بھی افراد بھی اب تو
سارے ہی ترے شہرِ محبت کے ہیں راہی
مجھ پر بھی ہو للہ کرم شیخ رفاعی
دربارِ عقیدت میں بلا ہجر ہے دوبھر
دیوانے ہیں یوں جیسے کہ بے آب ہو ماہی
مجھ پر بھی ہو للہ کرم شیخ رفاعی
اوصاف و کمالات کے گن گاتی ہے دنیا
خدمت میں تری حاضری دینے لگی شاہی
مجھ پر بھی ہو للہ کرم شیخ رفاعی
تو سیدو وسردار ہے میں ادنی سا نوکر
تو رہبرِ مسلک ہے میں مسلک کا سپاہی
مجھ پر بھی ہو للہ کرم شیخ رفاعی
اس دورِ جہالت کو ملے نورِ ہدایت
اے کاش کہ مٹ جائے ضلالت کی سیاہی
مجھ پر بھی ہو للہ کرم شیخ رفاعی
آلامِ زمانہ نے کیا حال دگر گوں
اب چاہیے سرکار مجھے پشت پناہی
مجھ پر بھی ہو للہ کرم شیخ رفاعی
دشمن ہیں بہت اور میں ہوں تنہا مقابل
للہ ذرا ٹال دے حیدر کی تباہی
مجھ پر بھی ہو للہ کرم شیخ رفاعی