تحریر: شمیم رضا اویسی امجدی
خادم: طیبۃ العلماء جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی
آج ہندوستانی مسلمان موجودہ حالات کے تناظر میں تاریخ کے انتہائی پرآشوب اور مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں، جب سے مرکز میں فرقہ پرست سیاست کا جنم ہوا ہے اور مرکز میں بی جے پی حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے مسلم اقلیت کے خلاف استحصال کے معاملات کافی بڑھ گئے ہیں حتیٰ کہ ان کے جان و مال عزت و آبرو، تہذیب و ثقافت اور مذہب و شریعت سب خطرے میں نظر آ رہے ہیں، ہندوتوا طاقتیں اس قدر بے قابو ہو چکی ہیں کہ آئے دن ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں پر تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور ابھی ایک ہفتے کے اندر رام نومی کے جلوس کے موقع پر ملک کے مختلف علاقوں اور صوبوں میں کئی ایک تشدد کے واقعات پیش آئے ، کرناٹک، گجرات ،بہار ،یوپی ،راجستھان ،مدھیہ پردیش ،چھتیس گڑھ، دلی اور گوا سمیت دیگر کئی ریاستوں میں بھگوا داری غنڈوں نے مسجدوں پر پتھراؤ کیا، میناروں پر بھگوا جھنڈے لہرائے، مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہونچانے والے نعرے لگائے، اخباری رپورٹ کے مطابق گجرات کے ہمت نگر میں مسجد میں توڑ پھوڑ کی گئی، ایک مزار کو آگ لگا دیا گیا، مسلمانوں کے گھروں پر پتھراؤ کیا گیا، یہی صورتحال مدھیہ پردیش، راجستھان کے کرولی، جھارکھنڈ اور دلی کے کئی شہروں میں بھی دیکھنے کو ملی، گوا کی ایک مسجد میں رات 9 بجے مسلمان تراویح کی نماز ادا کر رہے تھے اسی دوران شرپسندوں نے ان پر حملہ کر دیا اور بیہودہ حرکتیں کیں لیکن افسوس اس وقت ہوا جب حکومت نے بجائے ان بھگوا داری غنڈوں پر کوئی کارروائی کرنے کے الٹا مسلمانوں پر ہی کیس کر دیا اور ان کے گھروں پر بلڈوزر چلوا دیا، گویا موجودہ حکومت نے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کا ایک عالمی ریکارڈ قائم کر لیا ہے اور بھارتی مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں مہاجرین جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے،
لہٰذا ایسے سنگین حالات میں جہاں ایک کے بعد ایک سانحوں نے مسلمانوں کے ہوش اڑا دیئے اور انہیں ہر طرح سے مایوس و پسپا کر دیا ایک سوال ابھر کر سامنے آتا ہے کہ کیا ان مشکل حالات پر آنسو بہانا ہمارے مسائل کو حل کر سکتا ہے؟ کیا ایسے وقت میں کفِ افسوس ملنا اور صفِ ماتم بچھانا ہمارے غموں کا مداوا بن سکتا ہے؟؟
نہیں ہرگز نہیں بلکہ مشکل حالات سے عاجز آ کر مایوسی کی چادر اوڑھ لینا زندہ قوموں کا شیوہ نہیں بلکہ زندہ قومیں ایسے مشکل حالات کا پورے عزم اور حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرتی ہیں، دشمن چاہتا ہے کہ ہم اپنا عزم و حوصلہ کھو دیں لیکن شاید اسے معلوم نہیں کہ ہم اس نبی کے ماننے والے ہیں جنہوں نے مشکل ترین حالات میں بھی قیصر و کسریٰ کی فتحیابی کی بشارت سنائی، لہٰذا موجودہ حالات سے مسلمانوں کو ڈرنے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں اسلیئے کہ مسلمانوں کی تاریخ بڑی سبق آموز ہے اگر ہم ان کا مطالعہ کریں تو یہ واضح ہو جائے گا کہ مسلمانوں کو مٹانا اور ختم کرنا کوئی آسان کام نہیں،
آئیے آج ہم 17 رمضان المبارک کے حوالے سے تاریخ کے ایک سنہرے واقعے کی ایک ہلکی سی جھلک اپنی نگاہوں کے سامنے لاتے ہیں جہاں چند مجاہدین نے اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور دشمن کو شکست دے کر تاریخ اسلامی کے باب میں ایک منفرد اور نمایاں مقام حاصل کیا ، جنھوں نے حق و باطل کے سب سے پہلے ایمان افروز اور حیرت انگیز معرکہ”غزوۂ بدر” میں شرکت کی،
جنکی تعداد محض ایک چھوٹے سے لشکر پر مشتمل تھی، پیادہ پا، فاقہ زدہ شکم، جنکے پاس نہ تو سواریوں کا انتظام تھا نہ آلات حرب کی فراوانی، نہ ہی طاقت کو مجتمع کرنے والی بہترین غزاؤں کی سہولت،،
اور دوسری جانب دشمنوں کا ایک ہزار کا لشکر جو ہر اعتبار سے لیس اور آراستہ بلکہ فوجیوں کے جوش و جذبہ کو بھڑکانے والی ہر چیز کا اہتمام،
لیکن اسکے باوجود بھی ان مٹھی بھر مجاہدین نے حالات کا رخ بدل دیا، کفار کے دم خم کو خاک میں ملا دیا اور انھیں انتہائی ذلت آمیز اور سخت ترین شکست سے دوچار کر دیا، اور دنیا والوں کو یہ پیغام دے دیا کہ
‘محض دنیاوی وسائل، آلات جنگ، اور سپاہیوں کی کثرت ہی جنگ جیتنے کے لیئے کافی نہیں ہوتی، بلکہ اگر ثابت قدمی، شوق شہادت، توکل علی اللہ، اور ایمان میں پختگی ہو تو بڑا سے بڑا معرکہ بھی بآسانی جیتا جا سکتا ہے،
اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے،،
“کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ واللہ مع الصابرین”
‘نہ جانیں کتنی چھوٹی جماعتیں ہیں جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں اور اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر سے کام لیتے ہیں,
لہذا اگر آج اسلام دشمن طاقتیں اپنی کثرت کا شور مچا کر اپنی تعداد کی زیادتی پر فخر و ناز کریں تو یہ انکی خامہ خیالی ہے،
اگر اللہ ربّ العزت چاہے تو انکی کثرتِ تعداد کے باوجود چھوٹی جماعت کے ذریعہ انکے غرور و تکبر کو خاک میں ملا دے اور انکو ہر طرح سے لاچار و بےبس کر دے،
لیکن اسکے لیئے ضروری ہے کہ ہمیں اپنے اسلاف کے طریقہ کار پر چلنا ہوگا اور اپنے اندر ایمان کامل پیدا کرنا ہوگا حق تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے،
” یآایھا الذین آمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ ولا تتبعوا خطوات الشیطان انہ لکم عدو مبین”
‘اے ایمان والو! اسلام میں پورے طور پر داخل ہو جاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے’
اور جس دن ہم نے اس چیز پر عمل کر لیا تو ہمارے لیئے رب کا وعدہ ہے،
“ولاتھنوا ولاتحزنوا وأنتم الاعلون ان کنتم مؤمنین”
‘(مسلمانو!) نہ تم کمزور پڑو! نہ ہی غمگین رہو! تمہارے لیئے ہی سر بلندی ہے اگر تم ایمان والے ہو’
لیکن افسوس کہ آج ہم بجائے کسی عملی اقدام کے صرف حالات کا شکوہ کرتے ہیں جو کہ یقیناً ایک طرح کی کج فہمی ہے،
آج ہمارے اندر سے ایمان کی مضبوطی اور جانثاری کا جذبہ ختم ہو چکا ہے، آج ہر کوئی چاہتا ہیکہ کاش پھر کوئی سلطان صلاح الدین ایوبی پیدا ہوتا لیکن اپنے گھر میں نہیں دوسرے کے گھر میں اسلئیے کہ آج ہم میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ ہم اپنی یا اپنے گھر کے افراد میں سے کسی کی قربانی پیش کر سکیں جب کہ ہمارے اسلاف کا حال ایسا تھا کہ روایتوں میں آتا ہے
“جب سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم غزوۂ بدر کے لیئے مدینہ منورہ سے چلنے لگے، مدینے کے ایک گھر میں ایک باپ اور بیٹے کے درمیان عجیب و غریب اور بے نظیر مباحثہ جاری تھا ،
باپ بیٹے سے کہتا ہے’ ہم دونوں کے سوا گھر میں کوئی مرد نہیں اسلیئے مناسب ہیکہ ہم دونوں میں سے کوئی ایک یہیں رہے اور دوسرا جہاد میں شریک ہو تم جوان ہو اور گھر کی دیکھ بھال بہتر طور پر کر سکتے ہو اسلیئے تم یہیں رہو اور مجھے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ جانے دو!
اسکے جواب میں سعادت مند فرزند نے عرض کی،
باباجان! اگر جنت کے علاوہ اور کوئی معاملہ ہوتا تو مجھے گھر پر رہنے میں کوئی عذر نہ تھا، مجھے اللہ تعالیٰ نے اتنی قدرت دی ہیکہ آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہمرکابی کا حق ادا کر سکوں اسلئیے آپ رہیئے اور مجھے جانے کی اجازت دیجئے!
شاید اللہ تعالیٰ مجھے شرف شہادت بخشے،،
بڑی تکرار کے بعد باپ نے فیصلہ کیا کہ قرعہ ڈالتے ہیں جسکا نام نکلا وہ جہاد میں جائے گا بیٹے نے رضامندی کا اظہار کیا،
قرعہ ڈالا گیا اور بیٹے کا نام نکلا, بیٹے کو اس قدر مسرت ہو رہی تھی کہ پاؤں زمین پر نہیں پڑ رہے تھے،، آپ کو بتا دیں کہ اس خوش نصیب بیٹے کا نام حضرت سعد اور اس عظیم باپ کا نام حضرت خثیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہے،،
چنانچہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت ذوق و شوق کے ساتھ سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہمرکابی میں بدر پہونچے، اور انتہائی جانثاری کے ساتھ لڑے حتی کہ طعیمہ بن عدی یا عمرو بن عبدود کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمایا،، انا للہ وانا الیہ راجعون،،
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اسلاف کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور ان سے سبق حاصل کریں،،
بالخصوص غزوۂ بدر کا واقعہ ہمیں یہ درس دیتا ہیکہ اگر دلوں میں کامل ایمان ہو، دین پر مر مٹنے کا جذبہ ہو، اور اللہ ربّ العزت پر توکل ہو تو باطل کی بڑی سے بڑی طاقت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، عددی اور مادی وسائل کی کمی کے باوجود اہل ایمان ہر معرکہ ہر محاذ پر کامیاب و کامران رہیں گے۔