تحریر: محمد جنید رضا
اسلامک اسکالر بریلی
جنگ بدر وہ عظیم معرکہ ہے جس میں رب العزت نے مسلمانوں کو ایسی فتح و کامرانی سے نوازا، جو قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے سرخروئی کا سبب ہے۔ اور یہ تاریخی جنگ ہے۔ تاریخ کا تقاضہ ہے کہ جب کوئی واقعہ کسی تاریخ میں ہوتا ہے ہے تو جب جب وہ تاریخ آئے، تو واقعہ کو دہرانا ضروری ہوتا ہے۔
بدر مدینہ منورہ سے تقریبا اسی میل کے فاصلے پر ایک کنویں کا نام ہے جہاں زمانہ جاہلیت میں سالانہ میلا لگتا تھا۔
کفار قریش پہلے ہی سے اسلام دشمن اور مسلمانوں کے بد خواہ اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تب بھی کفار ان کو طرح طرح کی ایذا رسانی کے مواقع تلاش کرتے رہتے تھے اور مختلف چھوٹے چھوٹے غزوات اور سرایا کے ذریعے مسلمانوں سے جھڑپیں ہوتی رہتی تھی اتفاق سے سریہ عبد اللہ بن جحش میں عمرو بن حضرمی جو کفار کے بڑے گھرانے کا فرد تھا مارا گیا۔ جس کی وجہ سے کفار مکہ آگ بگولہ ہوگئے اور عمرو بن حضرمی کے خون کا بدلہ لینے کے لیے برسر پیکار ہوگئے لیکن مسلمان مکہ شریف سے بہت دور تھے اس لئے ان سے بدلہ لینا اتنا آسان نہیں تھا تو وہ مکے میں رہ کر ہی ان کو ختم کرنے کی حیلے بہانے کرتے رہتے تھے۔ اور ان کی زبانوں پر صرف ایک نعرہ تھا کہ خون کا بدلہ خون
مگر بالکل ناگہانی یہ صورت حال پیش آئی کہ وہ قافلہ جس کے تعاقب میں نبی کریم ﷺ مقام ذو عشرہ تک تشریف لے گئے وہ ہاتھ نہیں آیا اچانک مدینہ طیبہ میں خبر ملی کہ اب وہی قافلہ ملک شام سے لوٹ کر مکہ جانے والا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا قافلے میں ابو سفیان بن حرب، مخرمہ بن نوفل، وغیرہ کل تیس یا چالیس آدمی ہے اور کفار قریش کا مال تجارت جو اس قافلے میں ہے وہ بہت زیادہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کفار قریش کی ٹولیاں لوٹ مار کی نیت سے مدینہ کے اطراف سے اطراف میں برابر گشت لگاتی رہتی ہیں اور کرز بن جابر فہری مدینے کی گاہوں تک آکرغارتگری اور کر گیا ہے۔
اور یہ جنگ اپنے آپ میں کئی خصوصیات کی متحمل ہے۔ ایک تو یہ کہ اللہ تبارک وتعالی نے اس جنگ میں مسلمانوں کی مدد و نصرت کا بیان قرآن مجید میں کیا ہے۔اور انہیں فتح و کامرانی کا مژدہ سنایا ہے۔ دوسرے یہ ہے کہ یہ جنگ عظیم رمضان کے مبارک مہینے میں واقع ہوئی تیسری یہ کہ اس جنگ سے کچھ دن پہلے ہی روزے فرض ہوئے تھے۔ چوتھے یہ کہ اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد نہایت کم اور بےسروسامانی کے عالم میں جبکہ دوسری طرف کافروں کا لشکر جرار اور اسلحہ اور ہتھیار سے لیس تھا۔
جنگ بدر میں روزہ داروں کے لئے درس رمضان میں لوگ اپنے روزہ دار ہونے کی شکایت کرتے ہیں کہ اتنی شدید گرمی ہے روزہ کیسے رکھیں گے۔ حالانکہ اصحاب بدر پر نظر کریں تو اپنے حالات آسان ترین معلوم ہوں گے۔ اس لئے کہ وہ لوگ مسافر تھے اور بے آب وگیاہ صحرا کا سفر طفیل اور تپتی چلچلاتی دھوپ۔ ادھر کفار کا لشکر جرار ہے اور ادھر نماز اور سحر و افطار۔ وہاں پر تو عبادات بھی تلوار کے ساے میں ادا ہو رہی تھیں۔ جبکہ ہماری نمازیں مسجد کی اے سی میں ہوتی ہیں۔
جنگ بدر میں خدائی امداد کئی بار
پہلی مدد اس طرح کی کہ مسلمانوں کو کافروں کی تعداد کم نظر آئے ان کی بھاری تعداد اور کثرت دیکھ کر کر مسلمان گھبرائیں نہیں ہیں جس کا ذکر قرآن مجید میں میں کیا ہے ہے
اور جب وہ لڑتے وقت تھوڑے کرکے دکھاے اور تمہیں ان کی نگاہ میں تھوڑا کیا (کنز الایمان)
دوسری مدد اس طرح ہوئی کہ کافروں کو مسلمانوں کی تعداد زیادہ نظر آتی، تھی جس کی وجہ سے کافروں پر مسلمانوں کا رعب بیٹھ گیا۔ جیساکہ قرآن مجید میں ہے اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے جب تم اپنے رب سے فریاد کرتے تھے مدد کی تو اس نے سن لی کہ میں تمہیں مدد دینے والا ہو ان ہزاروں فرشتوں کی قطار سے (کنز الایمان)
کفار کی قتل گاہیں
جنگ سے ایک دن پہلے نبی کریم علیہ السلام جنگ کی نقشہ نگاری فرما رہے تھے اور آپ کے دست مبارک میں چھڑی جس سے آپ نے لکیریں کاڑ کر یہ متعین فرما دیا کہ کون کافر کہاں مرے گا۔
جنگ بدر ہندوستانی مسلمانوں کے حالات
اگر ہندوستانی مسلمانوں کو جنگ بدر کے تناظر میں دیکھا جائے تو حالات بالکل مماثل ہیں اس لئے کہ وہاں پر بھی مسلمان اقلیت میں تھے اور یہاں پر بھی مسلمان اقلیت میں ہیں۔ وہاں پر بھی کفار اکثریت میں تھے اور یہاں پر بھی بھاری تعداد میں۔ وہاں پر بھی مسلمان کو ختم کرنے کے لیے کفار برسرپیکار تھے اور یہاں پر بھی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی نینی سازشیں رکھی جاتی ہیں۔ مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے جس طرح سے کفار قریش ہر برسایا استعمال کرتے تھے مسلمانوں کا راستہ روکنا راستے میں قتل کرنا انہیں پریشان کرنا اسی طریقے سے ہندوستان میں بھی جگہ جگہ مسلمانوں کو مارنا ان کا قتل عام کرنا ان کی مسجدوں پر حملہ کرنا اور طرح طرح کی اذیت رسانی کو کفار قریش سے ملتی ہے۔ لیکن اگر مسلمان اپنے رب سے اسی طرح ڈرنے والا ہو جائے جیسا کہ صحابہ کرام تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام متبعین تو یہ بات بعید نہیں کہ اللہ تبارک وتعالی آج کے مسلمانوں کے لیے بھی مدد کے لیے فرشتوں کی فوج بھیج دے۔ ہم اپنے رب کی اتنی نافرمانیاں کرتے ہیں اس کے باوجود بھی ہمارے رب نے کفار پر مسلمانوں کا ایسا روب و دبدبہ ڈال رکھا ہے جس کی وجہ سے ہمارے نہاتے ہونے کے باوجود وہم سے گھبراتے ہیں اگر ہم اپنے رب سے ڈرنے لگے اس کی فرماں برداری کر نے لگے تو ہمارے رعب و دبدبہ کا کیا حال ہوگا۔