نتیجۂ فکر: توصیف رضا رضوی، باتھ اصلی، سیتامڑھی بہار
کِس زباں سے ہو بیاں کیا ہیں مِرے احمد کبیر
دِل کے زخموں کا مداوا ہیں مِرے احمد کبیر
یہ نہ چھوڑیں گے کبھی چاہے زمانہ چھوڑ دے
غم کے ماروں کا بھروسہ ہیں مِرے احمد کبیر
اُن کے در کی خاک منہ پر مَل رہا ہوں اِس لئے
عاشقِ سرکارِ بطحا ہیں مِرے احمد کبیر
میرا دامن کیوں نہیں رہتا کبھی خالی سنو
میں گدا ہوں اور داتا ہیں مِرے احمد کبیر
ذکر سے اُن کے عقیدے کو ہے مِلتی روشنی
غوث کی آنکھوں کا تارا ہیں مِرے احمد کبیر
ہو اگر توصیفؔ اُن جیسا کوئی تو دیں مثال
مانتا ہے دہر یکتا ہیں مِرے احمد کبیر